کاکس بازار، بنگلہ دیش کی 55 سالہ روہنگیا مسلمان پناہ گزین انورہ بیگم نے اپنی 7 سالہ پوتی ام حبیبہ کو بہلا کرکھانا کھلاتے ہوئے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ننھی حبیبہ اپنی 27 سالہ ماں، حاتم النسا، اور اپنی 5 سالہ بہن ام سلیمہ کے غم میں رو رہی تھی۔ خاندان کو حال ہی میں معلوم ہوا تھا کہ ملائیشیا جانے والی لکڑی کی ان کی کشتی کا انجن سمندر میں خراب ہو گیا تھا۔
فلم ساز شفیع الرحمان نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں رائٹرز کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ 185 روہنگیا پناہ گزینوں کے ساتھ ایک کشتی آچے کے ساحل پر پہنچی ہے۔ آپ ان مایوس بھوکے پیاسے پناہ گزینوں کو زندگی کی ایک نئی امید کے ساتھ ساحل کی طرف بھاگتے دیکھتے ہیں۔
ایسی ہی ایک کشتی میں25 نومبر کو حاتم النسا اپنی پانچ سال کی بیٹی کے ساتھ بنگلہ دیش سے روانہ ہوئی تھیں۔ کشتی پر تقریباً 200 مسافر سوار تھے، جو تمام کے تمام روہنگیا مہاجر تھے، ان کے پاس خوراک اور پانی ختم ہو گیا تھا۔
انورہ بیگم نے وی او اے کو ایک ٹیلی فون انٹرویو میں بتایا کہ حاتم نے ہمیں بتایا کہ لوگ بھوک اور پیاس سے کشتی پر مر رہے تھے کیونکہ کشتی کی کوئی منزل نہیں رہی تھی اور وہ پانی کی لہروں پر ڈول رہی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ میری بیٹی اور پوتی کا بھی یہی انجام ہوگا۔
’’میں بہت روئی لیکن حبیبہ کے سامنے کبھی نہیں۔ میں نے اسے کہا کہ اللہ کسی طرح اس کی ماں اور بہن کو بچا لیں گے۔ میں دعائیں مانگتی رہی۔‘‘
ان سے سینکڑوں کلومیٹر دور سمندر پر، ایک خستہ حال حاتم النسا، نے بھی اپنے آپ کو ایک چھوٹی سی بچی کے لیےٹوٹنے نہیں دیا تھا ، انہوں نے وی او اے کو ایک کال میں بتایا کہ ’’جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ کشتی ملائیشیا کی سمت نہیں جارہی ہے، مجھ سمیت سب عورتیں بے چین ہو گئیں۔‘‘
جب کشتی انڈیا کے پانیوں میں پہنچی تو اس میں سوار تقریباً 30 بچوں میں سے بہت سے بھوک اور پیاس سے رونے لگے۔ بچوں کو تکلیف میں دیکھ کر ان کی مائیں بھی رونے لگیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
حاتم النسا نے آنسو بہانے سے انکار کر دیا، اس ڈر سے کہ سلیمہ خوفزدہ ہوجائیگی۔ ’’میں نے اپنی بیٹی کوسینے سے لگا لیا جو بیمار پڑ گئی تھی کیونکہ میں نے اسے نمکین سمندری پانی پلادیا تھا۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اللہ ضرور منزل تک پہنچنے میں ہماری مدد کرے گا،‘‘ ۔
حاتم النسا ان تقریباً ساڑھے سات لاکھ دیگر افراد میں شامل ہیں جو میانمار کی اکثریتی مسلمان روہنگیا اقلیت پر فوج کے وحشیانہ کریک ڈاؤن کے بعد بنگلہ دیش فرار ہوگئے تھے۔ اس کے شوہر نے دوسری بیٹی کی پیدائش کے فوراً بعد اسے چھوڑ دیا تھا۔
SEE ALSO: دلہن کے لباس میں یہ روہنگیا لڑکی کون ہے؟دو بچوں کی اکیلی ماں نے کہا، ’’بنگلہ دیش کے گنجان آباد، غیر محفوظ روہنگیا پناہ گزین کیمپ جیلوں کی طرح ہیں‘‘۔ کیمپوں میں رہتے ہوئے، حکام کی طرف سے ہماری نقل و حرکت پر پابندی ہے اور ہمارے بچوں کو تعلیم تک رسائی نہیں ہے۔ کاکس بازار میں مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کے بچے عام طور پر مدرسوں میں پڑھتے ہیں، جہاں انہیں قرآن پڑھنا اور تلاوت کرنا سکھایا جاتا ہے۔
’’لہذا، میں نے اپنے بچوں کو ملائیشیا لے جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ وہاں بہتر تعلیم حاصل کریں گی، اور بڑی ہو کر باہمت خواتین بنیں گی‘‘۔ حاتم نے کہا۔’’میں اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ سفر کرنے کے قابل نہیں تھی اس لیے میں نےصرف سلیمہ کو ساتھ لیا۔ مجھے امید تھی کہ حبیبہ بعد میں کسی طرح ہمارے ساتھ شامل ہو جائےگی۔
Your browser doesn’t support HTML5
سمندری سفر میں 10 دن بعد کشتی کا انجن خراب ہونے سے مسافروں میں بے چینی پھیل گئی۔ صورت حال س وقت مزید خراب ہو گئی جب ان میں سے 19 نے ایک کشتی گزرتے دیکھ کر مدد حاصل کرنے کی امید میں پانی میں چھلانگ لگا دی لیکن کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں آیا، اور وہ سب سمندر میں ڈوب گئے۔
’’تیرہ دن تک بھوکے پیاسے،مسلسل چیختےچلاتے اور مدد کے لیے کپڑے لہراتے ہوئے، ہماری توانائی مکمل طور پر ختم ہو گئی۔ 26 مسافروں کی پہلے ہی موت ہو چکی تھی،‘‘ اس نے کہا۔
’’ایک موقع پر، ہم سب نے مدد حاصل کرنے کی کوشش کرنا چھوڑ دیا۔ ہم کیبن میں گئے اور وہاں خاموشی سے لیٹ گئے۔کسی نےکچھ کہا نہیں ، لیکن شاید ہر کوئی کشتی پر مرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ ‘‘
Your browser doesn’t support HTML5
انورہ بیگم کی دعاؤں کا جواب 26 دسمبر کو حاتم النسا کی طرف سے ایک ویڈیو کال کی صورت میں آیا۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی کے مطابق ان ماں بیٹی اور تقریباً 172 دیگر افراد کو ماہی گیروں اور مقامی عہدہ داروں نے انڈونیشیا کےضلع آچے میں بچایا تھا۔
حاتم نے کہا، ’’اس آزمائش سے بچنے کے بعد میرا اللہ پر یقین مضبوط ہوا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں جلد ملائیشیا پہنچ جاؤں گی۔‘‘
ملائیشیا میں ان کا قیام غیر قانونی ہے، بنگلہ دیش میں ، حاتم النسا کا خاندان، حبیبہ کو اس کی ماں کی طرح غیر قانونی اورناقابل بھروسہ کشتی کے سفر پر بھیجنے سے خوفزدہ ہے۔
’’میری بیٹی صرف 7 سال کی ہے۔ وہ خطرات سے پر یہ غیر قانونی سمندری سفر نہیں کر سکتی۔ میں بین الاقوامی برادری سے درخواست کرتی ہوں کہ وہ کچھ کریں تاکہ حبیبہ قانونی طور پر بنگلہ دیش سے ملائیشیا کا سفر کر سکے اور مجھ سے اورسلیمہ سےدوبارہ مل سکے۔ یہ ایک ماں کی اپیل ہے،‘‘ حاتم النسانے کہا۔
رپورٹ سارہ عزیز، وائس آف امریکہ