جھلملاتے آنچل میں لپٹی، ریشمی کپڑوں اور روپہلے جوتوں میں ملبوس ایک لڑکی پرس لیے کھڑی ہے جب کہ اس کے پس منظر میں بانس سے بنی دیواروں اورچھت والا مکان کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔
یہ ایک تصویر ہے جو اس لڑکی کے اہلِ خانہ، عزیزوں اور رشتے داروں کے علاوہ ان لڑکوں کو بھیجی گئی جو ممکن ہے دلہا بننے کے آرزومند ہوں۔
یہ مسلمان روہنگیا لڑکی مبینہ خاتون ہے۔ 13 سال کی عمر میں 2 دسمبر 2022 کو وہ بنگلہ دیش سے ملائیشیا جانے والی ایک کشتی پر سوار ہوئی۔ اس کے ساتھ 32 مزید روہنگیا لڑکیاں اور خواتین تھیں۔۔۔سب غیر شادی شدہ۔ ان سب کا تعلق کاکسز بازار، بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپ سے تھا اور مبینہ کی 20 سالہ پھوپھی بھی اس کے ساتھ تھی۔۔۔اور شادی ا س کی بھی نہیں ہوئی تھی۔
وائس آف امریکہ کے لیے سارہ عزیز اپنی رپورٹ میں بتاتی ہیں کہ ایک غیر قانونی فیری سروس کی یہ کشتی جس پر 180 مسافر سوار تھے اور جسے انسانوں کو سمگل کرنے والے چلا رہے تھے، 8 دسمبر سے لاپتہ تھی۔
25 دسمبر کو پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ایچ سی آر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ یہ کشتی سمندر میں سفر کے قابل نہیں تھی اور خدشہ ہے کہ یہ سمندر میں ڈوب گئی اور سب مسافر بھی سمندر کی نذر ہو گئے۔
یو ایچ سی آر کے اس بیان کے بعد کاکسز بازار کے اس ضرورت سے زیادہ بھرے، خستہ حال، جھونپڑیوں سے بنے روہنگیا پناہ گزین کیمپ میں جہاں دس لاکھ سے زیادہ بے گھر مسلمان پناہ لیے ہوئے ہیں، مایوسی اور رنج و غم نے ڈیرے ڈال لیے۔
مبینہ کے والد شاہ عالم جن کی عمر 35 سال ہے، روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرتے ہیں۔ وہ ان سینکڑوں دیگر پناہ گزینوں میں شامل ہیں جن کے پیارے اس گمشدہ کشتی میں سوار تھے۔
وائس آف امریکہ سے فون پر بات کرتے ہوئے عالم نے بتایا ،’’مبینہ میری سب سے بڑی بیٹی ہے۔ یہاں بنگلہ دیش میں رہتے ہوئے میں اپنی بیٹی یا اپنی بہن کی شادی نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ ہم نے انہیں ملائیشیا بھیج دیا جہاں اکثریت مسلمان ہیں۔‘‘
’’جب سے ہم نے خبر سنی ہے، کئی دن سے میری بیوی نے کھانا نہیں کھایا۔۔۔۔ ہم سب گم سم ہیں۔۔۔سخت پریشان ہیں۔ ‘‘ عالم نے کہا۔
لیکن ملائیشیا کے بارے میں بات کرتے ہوئے عالم کی آواز پرجوش ہو گئی۔
عالم نے بتایا،’’ گزشتہ 10, پندرہ برسوں میں میانمار اور بنگلہ دیش سے ملائیشیا جانے والے ہزاروں نو جوان وہاں اچھی نوکریاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ وہ روہنگیا لڑکیوں سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔ ملائیشیا میں میری ایک عزیز نے کہا تھا کہ وہ مبینہ اور حمیدہ کے لیے آسانی سےاچھے رشتے تلاش کر دے گی اور ہماری بچیاں بنگلہ دیش کے مصائب سے بچ کر بہتر حالات میں رہیں گی۔‘‘
گزشتہ چند برسوں میں کئی لڑکیاں ملائیشیا میں اپنے خواب پورے کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
ان میں سنورۃ خاتون کی بیٹی بھی ہے۔ 20 سالہ سنورہ خاتون جنوری 2021 میں ملائیشیا پہنچی تھی۔ وہاں ایک روہنگیا شخص سے اس کی شادی ہو گئی۔ سنورۃ خاتون کے شوہر کا 2016 میں انتقال ہو گیا تھا۔ وہ کاکسز بازار میں رہتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں،’ؔ’میرا داماد ایک تعمیراتی ورکر ہے۔ سنورہ اس کے ساتھ بہت خوش ہے۔ ان کا ایک سال کا ایک بیٹا ہے۔ وہ اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔‘‘
اب ملائیشیا میں بھی مشکلات ہیں
ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ ملائیشیا کی حکومت روہنگیا پناہ گزینوں کو یواین ایچ سی آر کا کارڈ جاری کر رہی تھی جس کی مدد سے وہ کسی بھی جگہ ملازمت کر سکتے تھے۔
مگر گزشتہ چند ماہ سےیو این ایچ سی آر نے ملائیشیا میں داخل ہونے والے نئے پناہ گزینوں کے اندراج کاکام روک دیا ہے اور اب وہ خفیہ طورپر انسانی سمگلروں کے ذریعے انڈونیشیا سے ہو کر ملائیشیا پہنچ رہے ہیں۔
غیر قانونی تارکینِ وطن ہونے کی وجہ سے انہیں پولیس کا ڈر لگا رہتا ہے اور وہ جنگلوں، کھلیانوں اور دیہات میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
عورت کے لیے خشکی ہے نہ سمندر
سمندر کے غیر قانونی سفر پر روانہ ہونے والی لڑکیوں اور خواتین کے لیے خطرہ صرف ڈوبنے اور بھوک پیاس کا نہیں ہے۔ ملائیشیا کے سفر میں انہیں سمندر اور خشکی دونوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں خاتون ہونے کے ناطے انہیں جنسی تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے کیونکہ اکثر ان کے ساتھ ان کے گھر والے نہیں ہوتے۔
کاکسز بازار کے جان محمد نے وائس آف امریکہ کو فون پر بتایا کہ وہ ایسے کئی واقعات کے بارے میں جانتے ہیں جب سفر کے دوران بعض لڑکیوں کو سمگلروں نے زیادتی کا نشانہ بنایا مگر متاثرہ لڑکیاں شاذ ہی اس بارے میں کسی کو بتاتی ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ ان کی شادی نہیں ہو گی۔
لیکن ان سب خطرات کے باوجود روہنگیا پناہ گزین اپنی بیٹیوں کو ملائیشیا بھیجنے پر مجبور ہیں۔ رشید اللہ ان ہی والدین میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنی بیٹیوں کو 2 دسمبر کو اس بد قسمت کشتی میں سوار کروایا تھا، بہتر مستقبل کے لیے۔ مگر کیا جانتے تھے کہ بیٹی کبھی واپس نہیں آئے گی۔
بیٹیاں اپنے وطن میں رخصت کی جائیں تو بھی ان کے مستقبل کے بارے میں والدین کو یقین نہیں ہوتا چہ جائے کہ انہیں ان دیکھی منزلوں کے لیے سمندر کے حوالے کردیا جائے۔