امریکی ووٹروں کی نظر میں صدر اوباما مسٹر رومنی کے مقابلے میں زیادہ پسندیدہ شخصیت ہیں ۔اسی لیےٴاس ہفتے کے کنونشن کے ذریعے، ریپبلیکنز اس صورتِ حال کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں
رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مٹ رومنی اور صدر براک اوباما کے درمیان برابر کا مقابلہ ہے ۔ لیکن ان جائزوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ووٹروں کی نظر میں صدر اب بھی مسٹر رومنی کے مقابلے میں زیادہ پسندیدہ شخصیت ہیں ۔اس ہفتے کے کنونشن کے ذریعے، ریپبلیکنز اس صورتِ حال کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مسٹر رومنی کی بیگم،این نے ڈیلیگیٹس کے سامنے اپنے شوہر کی ذاتی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان سے زیادہ سخت محنت کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ کسی کو ان سے زیادہ فکر نہیں ہوگی۔ اور اس ملک کو بہتر جگہ بنانے کے لیے کوئی اور شخص زمین اور آسمان کو مٹ رومنی کی طرح ایک نہیں کرے گا۔
ریاست جارجیا کے ریپبلیکن کانگریس مین ٹام پریز کہتے ہیں کہ مٹ رومنی پر مہینوں سے سیاسی حملے ہوتے رہے ہیں۔ پہلے یہ حملے ان کے ریپبلیکن حریفوں کی طرف سے ہوئے، اور بعد میں اوباما کی انتخابی مہم کی طرف سے۔ اب این رومنی اپنے شوہر کو ووٹروں میں متعارف کرانا چاہتی ہیں۔
ڈیموکریٹس مسٹر رومنی کو ایک سخت گیر اور سنگدل کاروباری شخصیت کے طور پر پیش کرنا چاہتےہیں جو ایسے سیاست داں کے بجائے جسے عام لوگوں کی فکر ہے، ایک مشینی سی ای او کی طرح کام کرتا ہے ۔ مسٹر رومنی نے خود کو ایسے امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے جو جانتا ہے کہ خراب معیشت کو کس طرح بحال کیا جائے۔ اس طرح ڈیموکریٹس کا کام اور آسان ہو گیا ہے ۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے تجزیہ کار جان سائیڈز کہتے ہیں کہ مسٹر رومنی کی شخصیت کے تاثر کے بارے میں مسائل ریپبلیکن پرائمری انتخابات کے دوران شروع ہوئے جب ان کے حریفوں نے ان پر تنقید کی۔ ان کے الفاظ ہیں کہ جنوری سے ہی بعض معاملات میں رومنی کے بارے میں لوگوں کا تاثر اتنا اچھا نہیں تھا جتنا اوباما کے بارے میں تھا ۔ مثال کے طور پر، یہ تاثر عام تھا کہ رومنی کو میرے جیسے لوگوں یا عام لوگوں کی کوئی خاص فکر نہیں ہے ۔ اوباما کو اس معاملے میں برتری حاصل تھی۔
لیکن ان کا دفاع کرنے والے، جیسے ریاست یوٹا کے سینیٹر اورین ہیچ توجہ دلاتے ہیں کہ مسٹر رومنی نے مورمن چرچ میں ایک مشنری کی حیثیت سے اور پھر بشپ کے طور پر کام کیا ہے ۔ ہیچ جو خود بھی مورمن ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اور مسٹر رومنی اکثر اپنے چرچ کے ساتھیوں کے مسائل پر ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔
مسٹر رومنی کو اچھی طرح جاننے والوں میں ریاست میساچوسٹس کے ڈیلی گیٹس بھی شامل ہیں جہاں انھوں نے گورنر کی حیثیت سے کام کیا ہے ۔ ڈان رانگ کہتے ہیں کہ جب ملک کے ووٹرز مسٹر رومنی کو اچھی طرح جان جائیں گے تو ان کی ساکھ بہتر ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ وہ انہیں اتنی اچھی طرح جان جائیں گے جتنی اچھی طرح ہم جانتے ہیں، اور وہ انہیں ووٹ دیں گے کیوں ہمیں ان کی ضرورت ہے ۔
بہت سے قدامت پسند اس خیال کو پسند نہیں کرتے کہ مسٹر رومنی کو اپنی شخصیت کے ذاتی پہلو زیادہ تفصیل سے دکھانے چاہئیں ۔ راج رہیج کاک کیلے فورنیا کے شہر سین ڈیاگو میں ایک ریڈیو پروگرام کے میز بان ہیں اور آج کل ٹمپا کے کنونشن سے اپنا پروگرام براڈکاسٹ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ وہ کس قسم کا انڈر ویئر پہنتے ہیں ۔ امریکیوں کی بہت بڑی تعداد کے لیے حالیہ انتخابات میں اس قسم کی باتیں فضول ہیں ۔ وہ تو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کاروباری اداروں کو کس طرح آزاد کریں گے تا کہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ قدامت پسند سمجھتے ہوں کہ وہ مٹ رومنی کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ کافی ہے، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ ووٹرز جنھوں نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے، نومبر میں ووٹ دینے سے پہلے ان کی ذات کے بارے میں مزید کچھ جاننا چاہیں۔
مسٹر رومنی کی بیگم،این نے ڈیلیگیٹس کے سامنے اپنے شوہر کی ذاتی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان سے زیادہ سخت محنت کوئی اور نہیں کر سکتا ۔ کسی کو ان سے زیادہ فکر نہیں ہوگی۔ اور اس ملک کو بہتر جگہ بنانے کے لیے کوئی اور شخص زمین اور آسمان کو مٹ رومنی کی طرح ایک نہیں کرے گا۔
ریاست جارجیا کے ریپبلیکن کانگریس مین ٹام پریز کہتے ہیں کہ مٹ رومنی پر مہینوں سے سیاسی حملے ہوتے رہے ہیں۔ پہلے یہ حملے ان کے ریپبلیکن حریفوں کی طرف سے ہوئے، اور بعد میں اوباما کی انتخابی مہم کی طرف سے۔ اب این رومنی اپنے شوہر کو ووٹروں میں متعارف کرانا چاہتی ہیں۔
ڈیموکریٹس مسٹر رومنی کو ایک سخت گیر اور سنگدل کاروباری شخصیت کے طور پر پیش کرنا چاہتےہیں جو ایسے سیاست داں کے بجائے جسے عام لوگوں کی فکر ہے، ایک مشینی سی ای او کی طرح کام کرتا ہے ۔ مسٹر رومنی نے خود کو ایسے امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے جو جانتا ہے کہ خراب معیشت کو کس طرح بحال کیا جائے۔ اس طرح ڈیموکریٹس کا کام اور آسان ہو گیا ہے ۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے تجزیہ کار جان سائیڈز کہتے ہیں کہ مسٹر رومنی کی شخصیت کے تاثر کے بارے میں مسائل ریپبلیکن پرائمری انتخابات کے دوران شروع ہوئے جب ان کے حریفوں نے ان پر تنقید کی۔ ان کے الفاظ ہیں کہ جنوری سے ہی بعض معاملات میں رومنی کے بارے میں لوگوں کا تاثر اتنا اچھا نہیں تھا جتنا اوباما کے بارے میں تھا ۔ مثال کے طور پر، یہ تاثر عام تھا کہ رومنی کو میرے جیسے لوگوں یا عام لوگوں کی کوئی خاص فکر نہیں ہے ۔ اوباما کو اس معاملے میں برتری حاصل تھی۔
لیکن ان کا دفاع کرنے والے، جیسے ریاست یوٹا کے سینیٹر اورین ہیچ توجہ دلاتے ہیں کہ مسٹر رومنی نے مورمن چرچ میں ایک مشنری کی حیثیت سے اور پھر بشپ کے طور پر کام کیا ہے ۔ ہیچ جو خود بھی مورمن ہیں، کہتے ہیں کہ وہ اور مسٹر رومنی اکثر اپنے چرچ کے ساتھیوں کے مسائل پر ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں۔
مسٹر رومنی کو اچھی طرح جاننے والوں میں ریاست میساچوسٹس کے ڈیلی گیٹس بھی شامل ہیں جہاں انھوں نے گورنر کی حیثیت سے کام کیا ہے ۔ ڈان رانگ کہتے ہیں کہ جب ملک کے ووٹرز مسٹر رومنی کو اچھی طرح جان جائیں گے تو ان کی ساکھ بہتر ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ وہ انہیں اتنی اچھی طرح جان جائیں گے جتنی اچھی طرح ہم جانتے ہیں، اور وہ انہیں ووٹ دیں گے کیوں ہمیں ان کی ضرورت ہے ۔
بہت سے قدامت پسند اس خیال کو پسند نہیں کرتے کہ مسٹر رومنی کو اپنی شخصیت کے ذاتی پہلو زیادہ تفصیل سے دکھانے چاہئیں ۔ راج رہیج کاک کیلے فورنیا کے شہر سین ڈیاگو میں ایک ریڈیو پروگرام کے میز بان ہیں اور آج کل ٹمپا کے کنونشن سے اپنا پروگرام براڈکاسٹ کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہے کہ وہ کس قسم کا انڈر ویئر پہنتے ہیں ۔ امریکیوں کی بہت بڑی تعداد کے لیے حالیہ انتخابات میں اس قسم کی باتیں فضول ہیں ۔ وہ تو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کاروباری اداروں کو کس طرح آزاد کریں گے تا کہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
ہو سکتا ہے کہ قدامت پسند سمجھتے ہوں کہ وہ مٹ رومنی کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ کافی ہے، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ وہ ووٹرز جنھوں نے اب تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے، نومبر میں ووٹ دینے سے پہلے ان کی ذات کے بارے میں مزید کچھ جاننا چاہیں۔