رومنی کو اپنی پارٹی کے اندر سرگرم قدامت پسند وں کے دل جیتنے میں مسلسل دشواری پیش آئی ہے۔
اس ہفتے ٹمپا، فلوریڈا میں ریپبلیکن پارٹی کے قومی کنونشن میں صدارتی امیدوار مٹ رومنی کے سامنے ایک مشکل چیلنج ہے۔ انہیں بعض ریپبلیکنز کو قائل کرنا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں قدامت پسند ہیں، اور اس کے ساتھ ہی انہیں نومبر کے انتخاب کے لیے ایسے اعتدال پسند ووٹروں کی حمایت بھی حاصل کرنی ہے جنھوں نے اب تک یہ طے نہیں کیا ہے کہ وہ کسے ووٹ دیں گے۔
مٹ رومنی نے ریپبلیکن پارٹی کی نامزدگی پرائمری اور کاکس انتخابات کے طویل عمل کے ذریعے حاصل کی ہے ۔ لیکن رومنی کو اپنی پارٹی کے اندر سرگرم قدامت پسند وں کے دل جیتنے میں مسلسل دشواری پیش آئی ہے۔
نامزدگی کے عمل میں رومنی کے بعض سابق حریف اس ہفتے ٹمپا میں ان کے گرد جمع ہو رہےہیں ۔ ان کی کوشش ہے کہ قدامت پسندوں کو اطمینان دلایا جائے اور ریپبلیکن پارٹی کو متحد کیا جائے ۔
رومنی کے سابق حریف ہرمن کین اب بھی قدامت پسندوں میں بہت مقبول ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ رومنی اور پاؤل ریان کے ریپبلیکن ٹکٹ کے لیے ایسے قدامت پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنھوں نے اب تک انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے ۔
’’ان لوگوں میں ہمارے اصل مشن کے بارے میں احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے اس کا مشاہدہ گذشتہ شب اپنے اجتماع میں اور دوسرے مقامات پر جہاں میں نے تقریریں کی ہیں، کیا ہے ۔ یہ لوگ عام کارکنوں کی طرح سخت محنت کر رہےہیں‘‘
رومنی کے ساتھی کی حیثیت سے، ریان کے انتخاب پر پارٹی میں بہت سے قدامت پسندوں کو خوشی ہوئی ہے۔ ان میں ریپبلیکن نامزدگی کی ایک اور سابق امیدوار، ایوانِ نمائندگان میں ریاست منی سوٹا کی رکن، میشیل بیکمان بھی شامل ہیں ۔
انھوں نے کہا ہے’’جب وہ مٹ رومنی کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو وہ چٹان کی طرح مضبوط نظر آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ پاؤل ریان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ میں انہیں جانتی ہوں اور میں نے چھ برس تک ان کے ساتھ کام کیا ہے، اور میں اس ٹکٹ کے بارے میں بہت پُر اعتماد ہوں۔‘‘
رومنی کو خارجہ پالیسی میں قدامت پسندی کا پرچار کرنے والوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ ان میں صدر جارج ڈبلو بش کے دور میں اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر جان بولٹن بھی شامل ہیں۔ بولٹن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں پورا اعتماد ہے کہ ٹمپا میں کنونشن کے دوران، ریپبلیکنز، صدر براک اوباما کی خارجہ پالیسی کے ریکارڈ کے خلاف مضبوط کیس پیش کریں گے ۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں سابق صدر رونلڈ ریگن کی خارجہ پالیسی کی طرف واپس جانا چاہیئے یعنی طاقت کے ذریعے امن قائم کرنا چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ گورنر رومنی کا موقف یہی ہے، اور وہ اسی قسم کی خارجہ پالیسی پر عمل کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ یہاں کنونشن میں، ہم اسی پالیسی کی وضاحت سنیں گے۔‘‘
لیکن اس ہفتے جب رومنی ریپبلیکن پارٹی کو متحد کرنے کی کوشش کریں گے، تو انھیں ان لاکھوں ووٹروں کو ذہن میں رکھنا پڑے گا جنھوں نے ابھی تک کسی پارٹی کو ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اور جن کے لیے عام طور سے کسی بھی پارٹی کے نظریاتی رجحانات پُر لشش نہیں ہوتے۔
سیاسی تجزیہ کار نارمن اورنسٹیئن کہتے ہیں کہ جمعرات کے روز جب رومنی اپنی تقریر میں نامزدگی کو قبول کریں گے، تو وہ انتخابی مہم کا انتہائی اہم لمحہ ہو گا۔
’’رومنی اپنی انتخابی مہم کے لیے ایک ولولہ انگیز تصور چاہتے ہیں جس کے ذریعے وہ یہ کہہ سکیں کہ وہ مؤثر انداز سے حکومت کر سکیں گے جب کہ اوباما ایسا نہیں کر سکے ہیں۔‘‘
ایک اور تجزیہ کارجیف گرینفیلڈ کہتےہیں کہ رومنی کو صدر کی اقتصادی کارکردگی پر تنقید کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہیئے۔ وہ کہتے ہیں کہ رومنی کو ووٹرز کو بتانا چاہیئے کہ وہ اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع میں اضافے کے لیے کون سے اقدامات کریں گے۔
’’لیکن اگر وہ کچھ ٹھوس تجاویز نہیں دیتے، اور یہ نہیں کہتے کہ میں نے آپ کو بتا دیا ہے کہ حالات کس طرح بہتر ہو سکتے ہیں، تو میرے خیال میں ، لوگ انہیں نظر انداز کر دیں گے اور کہیں گے کہ انھوں نے کوئی متبادل راستہ نہیں بتایا ہے۔‘‘
ٹمپا میں ڈیلی گیٹس سے بات کرنے کے بعد یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر بعض ریپبلیکنز صدارتی امید وار کی حیثیت سے رومنی کے نامزدگی کے بارے میں زیادہ پُر جوش نہ بھی ہوں، تو بھی وہ اپنے اس مقصد میں متحد ہیں کہ مسٹر اوباما کو صدارت کی دوسری مدت سے محروم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔
مٹ رومنی نے ریپبلیکن پارٹی کی نامزدگی پرائمری اور کاکس انتخابات کے طویل عمل کے ذریعے حاصل کی ہے ۔ لیکن رومنی کو اپنی پارٹی کے اندر سرگرم قدامت پسند وں کے دل جیتنے میں مسلسل دشواری پیش آئی ہے۔
نامزدگی کے عمل میں رومنی کے بعض سابق حریف اس ہفتے ٹمپا میں ان کے گرد جمع ہو رہےہیں ۔ ان کی کوشش ہے کہ قدامت پسندوں کو اطمینان دلایا جائے اور ریپبلیکن پارٹی کو متحد کیا جائے ۔
رومنی کے سابق حریف ہرمن کین اب بھی قدامت پسندوں میں بہت مقبول ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ رومنی اور پاؤل ریان کے ریپبلیکن ٹکٹ کے لیے ایسے قدامت پسندوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنھوں نے اب تک انہیں ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے ۔
’’ان لوگوں میں ہمارے اصل مشن کے بارے میں احساس بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے اس کا مشاہدہ گذشتہ شب اپنے اجتماع میں اور دوسرے مقامات پر جہاں میں نے تقریریں کی ہیں، کیا ہے ۔ یہ لوگ عام کارکنوں کی طرح سخت محنت کر رہےہیں‘‘
رومنی کے ساتھی کی حیثیت سے، ریان کے انتخاب پر پارٹی میں بہت سے قدامت پسندوں کو خوشی ہوئی ہے۔ ان میں ریپبلیکن نامزدگی کی ایک اور سابق امیدوار، ایوانِ نمائندگان میں ریاست منی سوٹا کی رکن، میشیل بیکمان بھی شامل ہیں ۔
انھوں نے کہا ہے’’جب وہ مٹ رومنی کی طرف نظر ڈالتے ہیں تو وہ چٹان کی طرح مضبوط نظر آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ پاؤل ریان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ میں انہیں جانتی ہوں اور میں نے چھ برس تک ان کے ساتھ کام کیا ہے، اور میں اس ٹکٹ کے بارے میں بہت پُر اعتماد ہوں۔‘‘
رومنی کو خارجہ پالیسی میں قدامت پسندی کا پرچار کرنے والوں کی حمایت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ ان میں صدر جارج ڈبلو بش کے دور میں اقوامِ متحدہ میں امریکہ کے سفیر جان بولٹن بھی شامل ہیں۔ بولٹن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہیں پورا اعتماد ہے کہ ٹمپا میں کنونشن کے دوران، ریپبلیکنز، صدر براک اوباما کی خارجہ پالیسی کے ریکارڈ کے خلاف مضبوط کیس پیش کریں گے ۔
’’میرا خیال ہے کہ ہمیں سابق صدر رونلڈ ریگن کی خارجہ پالیسی کی طرف واپس جانا چاہیئے یعنی طاقت کے ذریعے امن قائم کرنا چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ گورنر رومنی کا موقف یہی ہے، اور وہ اسی قسم کی خارجہ پالیسی پر عمل کریں گے۔ میرا خیال ہے کہ یہاں کنونشن میں، ہم اسی پالیسی کی وضاحت سنیں گے۔‘‘
لیکن اس ہفتے جب رومنی ریپبلیکن پارٹی کو متحد کرنے کی کوشش کریں گے، تو انھیں ان لاکھوں ووٹروں کو ذہن میں رکھنا پڑے گا جنھوں نے ابھی تک کسی پارٹی کو ووٹ دینے کا فیصلہ نہیں کیا ہے اور جن کے لیے عام طور سے کسی بھی پارٹی کے نظریاتی رجحانات پُر لشش نہیں ہوتے۔
سیاسی تجزیہ کار نارمن اورنسٹیئن کہتے ہیں کہ جمعرات کے روز جب رومنی اپنی تقریر میں نامزدگی کو قبول کریں گے، تو وہ انتخابی مہم کا انتہائی اہم لمحہ ہو گا۔
’’رومنی اپنی انتخابی مہم کے لیے ایک ولولہ انگیز تصور چاہتے ہیں جس کے ذریعے وہ یہ کہہ سکیں کہ وہ مؤثر انداز سے حکومت کر سکیں گے جب کہ اوباما ایسا نہیں کر سکے ہیں۔‘‘
ایک اور تجزیہ کارجیف گرینفیلڈ کہتےہیں کہ رومنی کو صدر کی اقتصادی کارکردگی پر تنقید کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہیئے۔ وہ کہتے ہیں کہ رومنی کو ووٹرز کو بتانا چاہیئے کہ وہ اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع میں اضافے کے لیے کون سے اقدامات کریں گے۔
’’لیکن اگر وہ کچھ ٹھوس تجاویز نہیں دیتے، اور یہ نہیں کہتے کہ میں نے آپ کو بتا دیا ہے کہ حالات کس طرح بہتر ہو سکتے ہیں، تو میرے خیال میں ، لوگ انہیں نظر انداز کر دیں گے اور کہیں گے کہ انھوں نے کوئی متبادل راستہ نہیں بتایا ہے۔‘‘
ٹمپا میں ڈیلی گیٹس سے بات کرنے کے بعد یہ تاثر ملتا ہے کہ اگر بعض ریپبلیکنز صدارتی امید وار کی حیثیت سے رومنی کے نامزدگی کے بارے میں زیادہ پُر جوش نہ بھی ہوں، تو بھی وہ اپنے اس مقصد میں متحد ہیں کہ مسٹر اوباما کو صدارت کی دوسری مدت سے محروم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔