نیو یارک میں پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کی ملکیت روز ویلٹ ہوٹل ان دنوں پاکستان کے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں گزشتہ چند روز سے تبصرے جاری ہیں کہ شاید حکومت اب اس اہم قومی اثاثے کو بھی فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے تاحال اس فیصلے کی تصدیق نہیں کی گئی۔
خریداروں سے متعلق یہ قیاس آرائیاں بھی کی گئیں کہ شاید امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس ہوٹل کی خریداری میں دلچپسی رکھتے ہیں۔
آرام دہ قیام کی سہولیات سے آراستہ یہ ہوٹل نیو یارک شہر کے مشرق میں میڈیسن ایونیو اور 45 ویں اسٹریٹ پر اقوامِ متحدہ کی عمارت سے کچھ گلیوں کے فاصلے پر قائم ہے جب کہ شہر کا جگمگاتا ٹائم اسکوائر بھی اس ہوٹل کے قریب ہی واقع ہے۔
چوں کہ یہ مین ہیٹن کے پر رونق حصے میں قائم ہے اس لیے بھی یہ سیاحوں اور سفارت کاروں کے لیے پرکشش قیام گاہ کے طور پر مشہور ہے۔ ہوٹل کا افتتاح 1924 میں ہوا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
لکڑی کے فرنیچر سے سجے ایک ہزار 25 کشادہ کمروں پر مشتمل یہ ہوٹل شروع سے ہی کئی سیاسی اور کاروباری شخصیات کی قیام گاہ اور توجہ کا مرکز رہا ہے۔ خصوصاً اس کے 52 کشادہ فلیٹ نما کمرے بھی اس کی اہمیت میں اضافہ کرتے ہیں۔
ان کمروں کے علاوہ ایک صدارتی اپارٹمنٹ بھی ہے جو چار کمروں، ایک باورچی خانے، ایک علیحدہ بیٹھک اور ڈائننگ روم پر مشتمل ہے۔
روز ویلٹ ہوٹل کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ 1947 میں یہ نیو یارک شہر کا پہلا ایسا ہوٹل تھا جس کے تمام کمروں میں ٹیلی ویژن کی سہولت موجود تھی۔
تاریخی اعتبار سے یہ ہوٹل 1943 سے 1955 تک نیو یارک کے گورنر تھامس ڈیوی کی قیام گاہ اوران کا سرکاری دفتر بھی رہا۔
انہوں نے 1948 کے انتخابات کے نتائج اسی ہوٹل کے کمرہ نمبر 1527 سے سنے تھے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ہیری ٹرومین انہیں غیر متوقع طور پر شکست دے کر امریکہ کے صدر بن گئے تھے۔
نیو یارک میں گزشتہ نصف صدی سے مقیم صحافی افتخار علی کے مطابق چین کو اقوامِ متحدہ میں شامل کرنے کے موقع پر چینی وفد نے اسی ہوٹل میں قیام کیا تھا۔ روز ویلٹ ہوٹل کے سامنے روزانہ چین کے حق اور مخالفت میں مظاہرے ہوا کرتے تھے جو ہر روز خبروں کا حصہ بنتے تھے۔
روزویلٹ پاکستان کی ملکیت کب بنا؟
پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) نے اپنے سرمایہ کاری کے ذیلی ادارے کے ذریعہ روز ویلٹ کو 1979 میں ٹھیکے پر حاصل کیا تھا۔ معاہدے کے تحت پی آئی اے کو حق حاصل تھا کہ وہ اس ہوٹل کو 20 سال بعد خرید سکتی تھی اور ایسا ہی ہوا۔
پی آئی اے نے 1999 میں اس ہوٹل کو تین کروڑ 65 لاکھ ڈالر میں خریدا۔ خریداری سے قبل پی آئی اے نے اس کے مالک سے ایک عدالتی جنگ بھی جیتی کیوں کہ ہوٹل کے اس وقت کے مالک پال ملسٹین نے دعویٰ کیا تھا کہ ہوٹل کی مارکیٹ ویلیو اس سے کہیں زیادہ ہے۔
1979 میں جب پی آئی اے نے روز ویلٹ ہوٹل خریدا تو اس وقت سعودی عرب کے شہزادہ فیصل بن خالد بن عبدالعزیز نے بھی اس میں سرمایہ کی۔
پی آئی اے نے 2005 میں سعودی شہزادہ سے چار کروڑ ڈالر اور سعودی شہر ریاض میں اپنی ملکیت ہالی ڈے ان کے عوض پورا ہوٹل مکمل طور پرخرید لیا۔ اب یہ 99 فی صد پاکستانی ملکیت ہے جب کہ بقیہ ایک فی صد کا مالک شہزادہ ہے۔
2008 میں ہوٹل کی تزئین و آرائش پر ساڑھے چھ کروڑ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کی گئی۔ 2011 میں پھر اس ہوٹل میں جدید سہولیات مہیا کرنے کا کام شروع ہوا۔
پی آئی اے کے انتظامی کنٹرول کے بعد پاکستان سے اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے آنے والے تقریباً تمام صدارتی اور وزیراعظم کے وفود اسی ہوٹل میں قیام کرتے رہے۔
پاکستانی صحافیوں کے لیے اس ہوٹل میں میڈیا سینٹر بھی قائم کیا جاتا رہا ہے۔
کیا ٹرمپ کمپنی روز ویلٹ خریدنے میں دلچسبی رکھتی ہے؟
بڑے پیمانے پر تزئین و آرائش کے کام اور دیگر اخراجات کے باعث گزشتہ سال پی آئی اے کو لگ بھگ 15 لاکھ امریکی ڈالر نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔
روز ویلٹ کے مستقبل کے بارے میں کچھ ہفتے قبل تنازع کھڑا ہو گیا جب پاکستان کی کیبنٹ کمیٹی براے نجکاری نے اس کی فروخت کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی۔ تاہم نجکاری کمیٹی نے محکمہ ہوا بازی کی جانب سے اٹھاے گئے قانونی اعتراضات کے بعد اس ٹاسک فورس کو ختم کردیا۔
اسی ہفتے پی آئی اے کی سرمایہ کاری کے ادارے (پی آئی اے آئی ایل) نے دعویٰ کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ روز ویلٹ ہوٹل خریدنے میں دلچسبی رکھتے ہیں۔
لیکن تاحال اس معاملے پر صدر ٹرمپ یا جائیداد کی خرید و فروخت سے متعلق ان کی کمپنی کی جانب سے تصدیق نہیں کی گئی۔
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بننے کے بعد 2017 میں کاروباری معاملات سے الگ ہو گئے تھے۔
البتہ ماہرین کے مطابق نیویارک میں مرکزی دفتر رکھنے والی ٹرمپ کی کمپنی کا روز ویلٹ ہوٹل میں دلچسبی رکھنا دوسری ریئل اسٹیٹ کمپنیوں کی طرح ایک معمول کا معاملہ ہو سکتا ہے کیوں کہ اس کمپنی نے کئی ہوٹلز کو کامیابی سے چلایا ہے۔
افتخار علی کے بقول شہر کے عین وسط میں واقع اتنی بڑی عمارت جس کی ایک جانب ٹائم اسکوائر ہے اور دوسری جانب اقوامِ متحدہ کا ہیڈ کوارٹر اس کی خرید و فروخت میں بھلا کون سی بڑی ریئل اسٹیٹ یا کاروباری کمپنی دلچسبی نہیں لے گی۔
نیویارک شہر کے کاروبار پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق اس بات سے قطع نطر کہ کون سی کمپنی روز ویلٹ کو خریدنے میں دلچسبی رکھتی ہے، کرونا وائرس کے بحران کے دوران اسے فروخت کرنا سود مند نہیں ہو گا۔
نیویارک میں مقیم ٹیکنالوجی اور کاروباری اُمور کے ماہر ساجد ملک کہتے ہیں کہ اتنی قیمتی اور پُر کشش عمارت کو بیچنے کا یہ کوئی موزوں وقت نہیں کیوں کہ شہر میں پہلے ہی عمارتوں کی قیمتوں میں کمی کا رجحان جاری ہے۔
عمارت کو منافع بخش کس طرح بنایا جائے؟
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر اس اثاثے کا جدت پسندی اور نئی منصوبہ بندی کے تحت استعمال کیا جائے تو اس کی قدر آنے والے وقت میں مزید بڑھ جائے گی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی عمارت جس پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کی گئی ہے اس کو منافع بخش بنانے کے لیے کس کاروباری ماڈل کو اپنایا جائے؟
ماہرین کے بقول اس بات کا فیصلہ کرتے وقت کئی عوامل کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر کیا سیاحت میں اضافے سے ہوٹل میں مختلف قسم کی ترامیم کر کے اسے فائدہ مند بنایا جاسکتا ہے؟
سیاحت کے حوالے سے اس ہوٹل کا محل وقوع نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ گرینڈ سینٹرل اسٹیشن سے محض 1281 فٹ یعنی ایک بلاک کے فاصلے پر ہے۔ نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئر پورٹ سے آنے والے سیاح گرینڈ سینٹرل اسٹیشن سے با آسانی پیدل چل کر روز ویلٹ پہنچ سکتے ہیں۔
لیکن موجودہ حالات میں سیاحت کب معمول پر آئے گی یہ ایک اہم سوال ہے۔ پھر کیا صرف سیاحت ہوٹل کو دوبارہ منافع بخش بنا سکے گی؟ اس سلسلے میں ہوٹل کی گزشتہ سال کی کارکردگی کوئی امید افزا دکھائی نہیں دیتی۔
پاکستانی حکام نے حال ہی میں دنیا کی ایک بڑی کمپنی ڈیلائٹ کی اس تجویز کا حوالہ دیا جس کے مطابق ہوٹل کو دفاتر پر مشتمل عمارت میں تبدیل کر دیا جائے تو یہ منافع بخش ہو سکتا ہے۔
اس کاروباری ماڈل کے حمایتی کہتے ہیں کہ اس پر عمل کرنے سے عمارت کی دیکھ بھال سے متعلقہ اخراجات کم اور منافع بڑھنے کا موقع زیادہ ہے۔
لیکن نیویارک میں کمرشل پراپرٹی کے مالک عمران اگرا کہتے ہیں کہ اس قسم کے ماڈل میں بہت بڑی سرمایہ کاری درکار ہے اور پاکستان کو موجودہ بحران کے پیش نظر روز ویلٹ ہوٹل جیسے قیتی اثاثے کو جلدی میں اس ماڈل میں ڈھالنے سے گریز کرنا چاہیے۔
عمران کہتے ہیں کہ اقتصادی جمود کے حالات میں پاکستان کو موجودہ انتظامیہ کے ساتھ ازسر نو معاہدہ کرنا چاہیے تاکہ آئندہ کچھ سالوں میں بغیر کسی بڑی سرمایہ کاری کے اسے سیاحوں کے لیے مزید پرکشش بنایا جا سکے۔