حسن روحانی نےکہا ہے کہ دراصل، افراط زر 42فی صد ہے، ناکہ32 فی صد، جیسا کہ اِس سے قبل بتایا جاتا رہا ہے
واشنگٹن —
جون کے انتخابات سے اب تک کے اپنے ایک سخت ترین بیان میں، منتخب ایرانی صدر نے سابق صدر محمود احمدی نژاد کی انتظامیہ کو ہدف ِتنقید بنایا ہے۔ اُنھوں نے پیر کے دِن کہا کہ معیشت سے متعلق کلیدی اعداد و شمار دعوے کے برعکس کہیں زیادہ بدتر ہیں۔
حسن روحانی کا یہ دعویٰ اُن کے اُس وعدے کی غمازی کرتا ہے جو اُنھوں نے انخابات کے دوران کیا تھا کہ وہ ایران کی معشیت کو استحکام بخشنے کے لیے تگ و دو کریں گے، جس کا باعث ایران کا جوہری پروگرام ہے جس پر مغربی ممالک نے تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔
اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ روحانی کی معتدل خیالات کی حامل حکومت مبینہ معاشی بدانتظامی کا قصور وار براہِ راست احمدی نژاد کو ٹھہرا سکتی ہے۔
اِس تنقید کے نتیجے میں، احمدی نژاد کے مخالفین کو یہ موقع مل سکتا ہے کہ وہ اُن کی مستقبل کی خواہشات پر پانی پھیر دیں۔ احمدی نژاد نے یہ نہیں بتایا کہ اگلے ماہ کے اوائل میں عہدہ چھوڑنے کے بعد اُن کا کیا پروگرام ہے، لیکن عام خیال یہ ہے کہ وہ سیاسی افق پر رہ کر اور ایرانی امور کے بارے میں آواز بلند کرنے میں دلچسپی رکھیں گے۔
متعدد اخبارات نے روحانی کا یہ بیان شائع کیا ہے جِس میں اُنھوں نے کہا ہے کہ اُن کی ماہرین کی ٹیم بتاتی ہےکہ 2006ء اور 2012ء کے دوران روزگار کےمحض 14000مواقع پیدا ہوئے۔ احمدی نژاد، جِنھوں نے 2005ء میں عہدہ سنبھالا یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ اُن کی حکومت نےروزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کیے۔
روحانی نے بتایا کہ دراصل، افراط زر 42فی صد ہے ناکہ 32فی صد، جیسا کی اس سے پہلے بتایا جاتا رہا ہے۔ اتوار کو ملک کے مرکزی بینک نے بتایا یہ تقریباً 36فی صدہے۔
روحانی نے روزنامہ شرق کو بتایا کہ ہم نے موجودہ اہل کاروں اور ماہرین کی اپنی ٹیم سے ملک کی معاشی صورتِ حال کے بارے میں معلوم کیا، تو معلوم ہوا کہ دونوں کے اعداد و شمار میں فرق ہے۔
منتخب صدر کے حامیوں کو توقع ہے کہ سابق جوہری مذاکرات کار مغرب کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کریں گے اور ایران کے سخت گیر قائدین کی طرف سے سیاسی اور سماجی آزادیوں پر عائد قدغنوں کو کسی حد تک کم کریں گے۔
تاہم، ملک کے تمام پالیسی فیصلے حکمراں مولیوں کے پاس ہیں۔ زیادہ تر امکان یہ ہے کہ روحانی معاشی امور کو فوری طور پر درست کریں گے، جو کہ عہدہ صدارت کے قلمندان کا ایک حصہ ہے۔
اتوار کے روز پارلیمانی ارکان کے ساتھ ایک ملاقات میں روحانی نےاپنے دفتر اور پارلیمان کے مابین قریبی تعاون پر زور دیا، تاکہ ملک کو درپیش شدید مشکلات کو رفع کرنے میں مدد دی جاسکے۔
حسن روحانی کا یہ دعویٰ اُن کے اُس وعدے کی غمازی کرتا ہے جو اُنھوں نے انخابات کے دوران کیا تھا کہ وہ ایران کی معشیت کو استحکام بخشنے کے لیے تگ و دو کریں گے، جس کا باعث ایران کا جوہری پروگرام ہے جس پر مغربی ممالک نے تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔
اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ روحانی کی معتدل خیالات کی حامل حکومت مبینہ معاشی بدانتظامی کا قصور وار براہِ راست احمدی نژاد کو ٹھہرا سکتی ہے۔
اِس تنقید کے نتیجے میں، احمدی نژاد کے مخالفین کو یہ موقع مل سکتا ہے کہ وہ اُن کی مستقبل کی خواہشات پر پانی پھیر دیں۔ احمدی نژاد نے یہ نہیں بتایا کہ اگلے ماہ کے اوائل میں عہدہ چھوڑنے کے بعد اُن کا کیا پروگرام ہے، لیکن عام خیال یہ ہے کہ وہ سیاسی افق پر رہ کر اور ایرانی امور کے بارے میں آواز بلند کرنے میں دلچسپی رکھیں گے۔
متعدد اخبارات نے روحانی کا یہ بیان شائع کیا ہے جِس میں اُنھوں نے کہا ہے کہ اُن کی ماہرین کی ٹیم بتاتی ہےکہ 2006ء اور 2012ء کے دوران روزگار کےمحض 14000مواقع پیدا ہوئے۔ احمدی نژاد، جِنھوں نے 2005ء میں عہدہ سنبھالا یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ اُن کی حکومت نےروزگار کے لاکھوں مواقع پیدا کیے۔
روحانی نے بتایا کہ دراصل، افراط زر 42فی صد ہے ناکہ 32فی صد، جیسا کی اس سے پہلے بتایا جاتا رہا ہے۔ اتوار کو ملک کے مرکزی بینک نے بتایا یہ تقریباً 36فی صدہے۔
روحانی نے روزنامہ شرق کو بتایا کہ ہم نے موجودہ اہل کاروں اور ماہرین کی اپنی ٹیم سے ملک کی معاشی صورتِ حال کے بارے میں معلوم کیا، تو معلوم ہوا کہ دونوں کے اعداد و شمار میں فرق ہے۔
منتخب صدر کے حامیوں کو توقع ہے کہ سابق جوہری مذاکرات کار مغرب کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کے اپنے وعدوں کو پورا کریں گے اور ایران کے سخت گیر قائدین کی طرف سے سیاسی اور سماجی آزادیوں پر عائد قدغنوں کو کسی حد تک کم کریں گے۔
تاہم، ملک کے تمام پالیسی فیصلے حکمراں مولیوں کے پاس ہیں۔ زیادہ تر امکان یہ ہے کہ روحانی معاشی امور کو فوری طور پر درست کریں گے، جو کہ عہدہ صدارت کے قلمندان کا ایک حصہ ہے۔
اتوار کے روز پارلیمانی ارکان کے ساتھ ایک ملاقات میں روحانی نےاپنے دفتر اور پارلیمان کے مابین قریبی تعاون پر زور دیا، تاکہ ملک کو درپیش شدید مشکلات کو رفع کرنے میں مدد دی جاسکے۔