|
’اگر آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں مقیم پاکستانی فلم میکر ہیں اور آپ نے کوئی ایسی فلم بنائی ہے جسے آپ عالمی میلے میں نمائش اور مقابلے کے لیے پیش کرنا چاہتے ہیں تو ہیوسٹن ٹیکسس میں شروع ہونے والے سالانہ رنگ فلم فیسٹیول میں ڈیجیٹل طریقے سے بھیج دیجے ۔‘
یہ کہنا تھا امریکی ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن میں رنگ فلم فیسٹیول کے فاؤنڈر اور ایک فلم میکر شاہد اقبال کا جنہوں نے وی او اے کو بتایاکہ ہیوسٹن میں قائم انڈس آرٹس کونسل کے زیر اہتمام اور ہالی ووڈ کے پاکستانی امریکی اداکاروں کی سپورٹ سے شروع کیا جانے والا ’’رنگ فلم فیسٹیول‘‘ ایک ایسا عالمی فلمی میلہ ہے جو دنیا بھر کے پاکستانی فلمسازوں اور تخلیق کارو ں کی کسی بھی شعبے ، کسی بھی فارمیٹ، کسی بھی دورانئے اورکسی بھی موضوع پر بنائی ہوئی فلموں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر نمائش کے لئے پیش کرتا ہے اور بہترین فن پاروں کو ایوارڈز اور ٹرافی سے نوازتا ہے۔
یہ آپ کی فلم کی ایک عالمی فلمی میلے میں نمائش کا نہ صرف ایک نادر موقع ہے بلکہ مختلف کیٹیگریز کے مقابلوں میں وہ کوئی ایوارڈ بھی حاصل کر سکتی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رنگ فلم فیسٹیول منفرد کیوں ہے؟
شاہد اقبال نے جو ایک امریکی فرم میں ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ ہیں کہا کہ ا گرچہ پاکستانی اور پاکستانی امریکی فلمساز، پروڈیوسرز، رائٹرز ، اور ڈائریکٹرز اپنی فلموں کو امریکہ میں منعقد ہونے والے مختلف فلم فیسٹیولز میں پیش کرتے رہتے ہیں مگر ان کی تعداد بھارتی امریکی فلمسازوں یا دوسری کمیونیٹیز کے فلمسازو ں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔
مقابلہ سخت ہونے کی وجہ سے ان کے لیے پذیرائی کے مواقع کم ہو جاتے ہیں ۔ لیکن رنگ فلم فیسٹیول امریکہ کا وہ واحد اورمنفرد پلیٹ فارم ہے جہاں صرف پاکستانی فلمسازوں کی بنائی ہوئی فلموں کو نمائش میں پیش کیا جاتا ہے خواہ وہ امریکہ میں ہوں، یا دنیا میں کسی بھی جگہ ہوں۔
ہیوسٹن میں حال ہی میں منعقدہ اپنے پہلے سالانہ رنگ فلم فیسٹیول کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس فیسٹیول میں امریکہ،کینیڈا ،بھارت ،پاکستان ، ایران اور جنوبی کوریاکے علاو ہ دنیا بھر کے ملکوں میں آباد پاکستانی فلم میکرز کی 100سے زیادہ فلموں کو نمائش اور مقابلے کے لیے پیش کیا گیا تھا اور مختلف کیٹیگریز میں بنائی گئی بیترین فلموں کو ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس مقابلے کے لیے زیادہ تر فلمیں امریکہ اور کینیڈا کے پاکستانی نژاد فلمسازوں نے آن لائن بھیجی تھیں جنہیں پاکستانی امریکی ہالی ووڈ ا اداکار کامران شیخ سمیت ایک جیوری نے دیکھا اور مختلف کیٹیگریز میں ایوارڈز کے لیے منتخب کیا۔ ان فلموں کو حال ہی میں ہیوسٹن میں دو روزہ رنگ فلم فیسٹیول میں میچ ۔ مڈ ٹاؤن آرٹس اینڈ تھیٹر سنٹر میں پیش کیا گیا جنہیں دیکھنے کے لیے سینکڑوں لوگ آئے ۔
اگلا مقابلہ کب ہو گا ؟
شاہد اقبال نے جو انڈس آرٹس کونسل ہیوسٹن ٹیکسس کے فاؤنڈر بھی ہیں بتایا کہ یہ ہیوسٹن میں ہی نہیں بلکہ امریکہ بھر میں پاکستانی امریکی فلم میکرز کا پہلا سالانہ مقابلہ تھا اور ان کا ادارہ اب ہر سال رنگ فلم فیسٹیول کا انعقاد کرے گا۔
اگلا رنگ فلم فیسٹیول 19 یا 20 اپریل 2025 میں منعقد کرنے کا پروگرام ہے جو ہیوسٹن ٹیکسس ہی میں ہوگا۔ اس مقابلے میں شرکت کےلیے یکم اگست 2024 سے 31 اکتوبر 2024 تک فلمیں بھیجی جا سکتی ہیں۔ اس کی ڈیڈ لائن 31 د سمبر 2024 ہو گی ۔
کون مقابلے میں حصہ لے سکتا ہے ؟
اس سوال کے جواب میں شاہد اقبال نے کہا کہ وہ تمام فلم میکرز مقابلے میں حصہ لے سکتے ہیں جن کی فلم کےعملے میں کم از کم ایک پاکستانی شامل ہو خواہ وہ کسی بھی ملک میں مقیم ہوں۔
فلمیں 2021 سے 2025 کے دوران بنی ہوں۔ اسکرپٹ،سین، گانوں میں اور یا بیک گراؤنڈ میوزک میں اردو زبان کے دو جملے ضرور شامل ہوں۔ جب کہ فلم کی موسیقی اور تصاویر سمیت تمام مواد کےلیے کاپی رائٹ میڈیا کے حقوق اور اجازت شامل ہونی چاہیے۔
فلم بھیجنے کا طریقہ؟
فلموں کو فلم فری وے ڈاٹ کام کے ذریعے ڈیجیٹل طریقے سے پھیجا جائے جس کا لنک ہے، https://filmfreeway.com/RungFilmFestival تمام فلموں کے ساتھ فلم کا ٹائٹل، ڈائریکٹر کا نام ، دورانیہ یا درخواست کیا جانے والا کوئی بھی اضافی مواد شامل ہو۔ مزید تفصیلات انڈس آرٹس کونسل ہیوسٹن سے حاصل کر سکتے ہیں جس کا لنک ہے۔
https://indusartscouncil.org/rung-film-festival
ایوارڈز
رنگ فلم فیسٹیول کے ڈائریکٹر فہد شیخ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس فیسٹیول میں طویل اور مختصر دورانئے کی سات بہترین فیچر اور شارٹ فلمز کو ایوارڈز دیے گئے جن کا فیصلہ پاکستانی اور امریکی فلم انڈسٹری کے ماہرین کے ایک پینل نے کئ ماہ تک ان فلموں کو دیکھ کر اور فائنل بحث کے بعد کیا۔
انہوں ے بتایا کہ فیسٹیول میں شریک آڈئینس کی مدد سے آڈیننس چوائس ایوارڈ بھی دئے گئے۔ جب کہ ان فلمو ں کو بھی سراہا گیا جو ایوارڈ تو نہ لے سکیں لیکن ان کا کام بہت زیادہ اچھا تھا۔
انہوں نے کہا کہ فیچر کیٹیگری میں اول آنے والی فلم لمیاز پوئم تھی جو شام کی ایک پناہ گزین بارہ سالہ لڑکی لمیا کی کہانی پر مبنی تھی ۔ جسےاپنے ملک کے تشدد سے فرار ہونے کے وقت تیرھویں صدی کے مشہور شاعر رومی کی شاعری کی ایک کتاب دی گئی تھی ۔
اور جوں جوں اس کا سفر آگے بڑھا وہ کتاب اس کے لیے ایک ایسا طلسماتی دروازہ بن گئی جس کے ذریعے وہ رومی سے اس ٹائم پیریڈ میں ملاقات کرتی ہے جب وہ ایک لڑکا تھا اور اپنے دور میں ملک کے تشدد سے فرار ہونے والا ایک پناہ گزین بھی تھا۔ اس فلم کو ڈائریکٹر الیکس کرونیمر نے ڈائریکٹ کیا تھا۔
کینیڈا سے تعلق رکھنے والے پاکستانی فلم ڈائریکٹر کاشف پاستا کی ڈائریکٹ کی ہوئی دیسی اسٹینڈرڈ ٹائم ٹریول فلم نے شارٹ فیچر کیٹیگری میں میں ایوارڈ حاصل کیا ۔ یہ فلم ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کے والد اچانگ اس وقت انتقال کر جاتے ہیں جب وہ خود باپ بنتا ہے ۔اور اس وقت اسے اپنے ماضی کی ایک شام میں واپس جانے اور اپنی حال کی زندگی کو بہتر بنانے کا ایک موقع ملتا ہے ۔
شادی اور مادہ پرستی کے گرد گھومتی فلم بوجھ میں اجاگر کیا گیا ہے کہ ماڈرن دنیا میں شادی کے رسم و رواج کس طرح بوجھ بن چکے ہیں۔اس فلم کو اسٹوڈنٹس کی بنائی ہوئی فلم کیٹگری میں ایوار ڈ دیا گیا ۔ فلم کو ایک پاکستانی محمداویس حسن نے ڈائریکٹ کیا تھا۔
ڈائریکٹر عمرریاض کی ڈائریکشن میں بننے والی فلم, دی آفٹر۔ اے شیفس وش نے بھی شارٹ کیٹیگری میں بہترین فلم کاایوارڈ جیتا۔
ڈائریکٹر شعیب سلطان کی فلم گنجل نے بہترین فیچر فلم کا ایوارڈ حاصل کیا ۔ جس میں 1990 کی دہائی میں قالین بافی کی صنعت میں چائلڈ لیبر کو موضوع بنایا گیا جس میں چائلڈ لیبر پر ریسرچ کرنے والا ایک صحافی شہباز ایک ایڈوکیٹ بن گیا۔
شارٹ کیٹیگری فلم میں ڈائریکٹر امینہ چوہدری کی بنائی ہوئی فلم ، لیو لائک ہیرث، نے ایوارڈ جیتا۔ جو انڈیانا کےایک پاکستانی امریکی پائلٹ باپ بیٹے کی سچی کہانی ہےجو اپنے نجی طیارے پر دنیا کا چکر لگانے کی ایک مہم کے دوران حادثے کا شکار ہو کرہلاک ہو گئے تھے ۔
محمد علی اعجاز کی ہدایات میں بننے والی فلم ’اولی کھولی‘ نے رنگ فیسٹیول میں ، بہترین اسٹوڈنٹ کیٹیگری میں ایوارڈ حاصل کیا جس میں ایک آرٹسٹ کومو ہولا اورجنگلی حیات کے تحفظ کا ایک علمبردار امریکی ریاست ہوائی میں معدومیت کے خطرے سے دوچار گھونگوں اور اس کے ہوائی لوگوں کے کلچر اور ثقافت پر پڑنے والے تکلیف دہ اثرات کو موضوع بنایا گیا ۔
رنگ فیسٹیول کے رنگ کہاں تک پھیلیں گے ؟
گرینڈ جیوری کی ایک رکن سعدیہ عقیلی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس فیسٹیول نے جہاں دنیا بھر کے پاکستانی فلمسازوں، پروڈیوسرز، اداکارو ں ، قلمکاروں کو اپنے فن پارے ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم پر پیش کرنے کا موقع فراہم کیا وہاں پاکستانی امریکی فلمساز کمیونٹی کو امریکہ کی مین اسٹریم فلمی دنیا کے اہم کرداروں سے رابطوں اور ملاقات کا موقع بھی فراہم کیا۔
سعدیہ جو ایک ایوارڈ وننگ آرٹسٹ ، ڈاکیومینٹری فلم میکر اور اپنے آرٹ پر متعدد بین الاقوامی ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں متنوع فلموں کے استعمال سے سماجی تبدیلی لانے کے لیے کوشاں ایک غیر منافع بخش ادارے کی بانی بھی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ رنگ فلم فیسٹیول نےپاکستانی امریکی فلمساز کمیونٹی کو ایک دوسرے کے قریب آنے ایک دوسرے کا اعتماد جیتنے دوست بننے اور دوستیاں بڑھانےکا موقع فراہم کیا۔ ان کا یہ قریبی اور مضبوط تعلق ہی انہیں اپنی صلاحیتوں کو مل کر آزمانے اور بہتر بنانے میں مدد کرے گا۔
جس سے اس ملک میں ان کی قدرو قیمت میں اضافہ ہوگا اور ان کے آبائی وطن پاکستان کے بارے میں بہتر تاثر پھیلانے اور اس چیز کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی کہ پاکستانی امریکی کمیونٹی جس نے اس ملک کو اپنا وطن بنایا ہے اس کی معاشرت، معیشت اور اس کے کلچر کی قدرو قیمت میں کتنا اضافہ کررہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ انڈس آرٹس کونسل ہیوسٹن نے رنگ فلم فیسٹیول کے رنگ جس خوبصورت انداز میں جس نظم و ضبط سے پیش کیے اس نے نہ صرف ایوارڈ حاصل کرنے والوں بلکہ اسے دیکھنے کےلیے آنے والوں کے دل اور دماغ کو بھی جیت لیا جنہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ فلمیں پاکستانیوں نے بنائی تھیں۔
انڈس آرٹس کونسل اور رنگ فلم فیسٹیول
رنگ فلم فیسٹیول، ہیوسٹن میں قائم انڈس آرٹس کونسل کی پروگرامنگ کا ایک حصہ ہے۔یہ کونسل 2012 میں شاہد اقبال اور ان کی اہلیہ سارہ اقبال نے اپنی کمیونٹی کے بچوں کو اردو زبان سکھانے کے لیے قائم کی تھی
اس وقت یہ غیر منافع بخش ادارہ اردو زبان کے فروغ اور پاکستانی آرٹس اور کلچر کے فروغ کا ایک ممتاز ادارہ بن چکا ہے جو اردو کلاسز ، کلچرل تقریبات اور تھیٹرز کی تمام سر گرمیوں میں اردو زبان کو مرکزی حیثیت دیتے ہوئے پاکستانی امریکی کمیونٹی اور امریکہ کی دوسری کمیونٹیز کے درمیان ثقافتی تبادلے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہ سیار( بائیں) صبا اقبال، سارا اقبال اور شاہد اقبال،
شاہد اقبال نے بتایا کہ یہ ادارہ جس کا موٹو ہے اونچا بول ۔ پاکستانی امریکیوں کو اپنی زبان اور کلچر پر فخر کرنے اس کو فخر سے اپنانے اور اسے فخر سے فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔