پاکستان میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبے کی روشنی میں درآمدی پابندیاں ہٹائے جانے کے بعد ملک میں امریکی ڈالر کی طلب میں زبردست اضافہ دیکھا جا رہا ہے جب کہ اس کے نتیجے میں روپے کی قدر میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
پیر کو پاکستانی روپے کی قدر میں 0.45 فی صد کمی کے بعد منگل کو بھی انٹربینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے کی قدر مزید گری۔
کاروبار کے اختتام پر ایک امریکی ڈالر 299 روپے کی بلند ترین قیمت پر نظر آیا۔ یوں منگل کو پاکستانی روپے کی قدر میں کوئی 0.63 فی صد کی مزید کمی دیکھی گئی۔
لیکن یہ رجحان صرف اس ہفتے سے نہیں بلکہ جون کے اواخر میں آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے اسٹینڈ بائی معاہدے کے فوری بعد روپے کی قدر میں بہتری کے بعد سے جاری ہے۔
اسٹینڈ بائی معاہدے کے بعد ملک میں ڈالر کی آمد شروع ہوئی تو روپیہ مستحکم ہوا اور ایک ڈالر کی قیمت 286 روپے سے کم ہو کر 275 روپے تک جا پہنچی۔
لیکن اس کے بعد اس میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اب انٹر بینک میں ایک ڈالر کی قیمت 299 روپے جب کہ اوپن مارکیٹ میں اس کی قیمت 306 روپے تک جا پہنچی ہے۔
یوں صرف دو ماہ سے بھی کم عرصے میں پاکستانی روپے کی قدر میں سات فی صد سے زائد کی گراوٹ آ چکی ہے جب کہ اس سال آٹھ ماہ میں پاکستانی روپیہ 23 فی صد سے زائد کمزور ہو چکا ہے۔
امریکی ڈالر کے علاوہ یورپی کرنسی یورو، آسٹریلین ڈالر، چینی یوآن، سعودی ریال اور اماراتی درہم کے مقابلے میں بھی پاکستانی روپے کی قدر میں کمی آئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ تو بڑھتی ہوئی درآمدی ادائیگیاں ہیں جو جولائی میں 80 کروڑ ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ یعنی جاری کھاتوں کے تازہ ترین اعدادوشمار سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جو چار ماہ مسلسل مثبت رہنے کے بعد سے دوبارہ منفی یعنی خسارے میں آ گیا ہے۔
آئی ایم ایف نے جولائی میں اسٹینڈ بائی معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے پاکستانی حکام سے درآمدی پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد اب پھر سے بھاری خساروں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
فارن ایکسچینج امور کے ماہر عبداللہ احمد کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر امریکی کرنسی کی قدر میں اضافے کی بڑی وجہ امریکہ میں شرح سود میں اضافہ ہے۔
اُن کے بقول بین الاقوامی سطح پر تیل کی بلند ہوتی ہوئی قیمتیں اور چینی معیشت میں سست روی کی وجہ سے وہاں تیل کی کم ہوتی ہوئی طلب بھی ڈالر کی قدر میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
مارکیٹ تجزیہ کار خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی روشنی میں ملک میں اوپن اور انٹر بینک مارکیٹ میں ایک ہفتے کے دوران فرق 1.25 فی صد سے زیادہ نہیں رہ سکتا۔
ان کے خیال میں اوپن مارکیٹ کی برابری کی پیروی کی پالیسی ہی میں خامی تھی اور اسے برقرار رکھنا مشکل ہے اور اسی لیے یہ نظر آ رہا ہے کہ اوپن مارکیٹ رسمی یعنی انٹربینک مارکیٹ کو چلا رہی ہے اور نتیجے کے طور پر پاکستانی روپے کو ضرورت سے زیادہ کمزور کر رہی ہے۔
ایک اور معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ ملک میں پہلے سے مہنگائی کی بڑھی ہوئی شرح کو آنے والے دنوں میں مزید تقویت دے گی اور ایسے میں حکومت 31 اگست کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے پر مجبور ہو گی۔
اُن کے بقول ایک ماہ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پہلے ہی 40 روپے فی لیٹر اضافہ ہو چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ جب تک برآمدات نہیں بڑھائی جاتی، ملک میں روپے کی قدر کمزور ہی رہنے کی توقع ہے۔
ڈاکٹر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کے عوض اب درآمدات پر پابندی کو تو ختم کر دیا ہے اس لیے اب برآمدات بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔