روس کی حکومت نے اطالوی اخبار کی خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے یورپ-امریکہ تنازع سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
واشنگٹن —
روس نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ اس کے انٹیلی جنس اداروں نے رواں برس ستمبر میں ہونے والے 'جی20' سربراہی اجلاس میں شریک مندوبین کی جاسوسی کی تھی۔
روس پر جاسوسی کا یہ الزام اٹلی کے ایک روزنامے 'کوریرے ڈیلا' نے رواں ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں عائد کیا تھا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اجلا س میں آنے والے سیکڑوں غیر ملکی مندوبین کو ٹیڈی بیئرز، ڈائریوں اور یو ایس بی کیز بطور سووینئر تحفے میں دی گئی تھیں جنہیں جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق 5 اور 6 ستمبر کو سینٹ پیٹرز برگ میں ہونے والے اجلاس کے منتظمین نے کم از کم تین سو سے زائد ایسی اشیا شرکا کو تحفتاً دی تھیں جن میں روسی انٹیلی جنس اداروں نے جاسوسی کے آلات چھپائے تھے۔
اطالوی اخبار کے مطابق ان جاسوسی کے آلات کا انکشاف گزشتہ ماہ اس وقت ہوا تھا جب یورپین کونسل کے سکیورٹی حکام نے اجلاس میں شریک مندوبین سے ان کی واپسی پر پوچھ گچھ کی تھی۔
روس پر جاسوسی کے یہ الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب یورپی رہنما امریکہ کی جانب سے اپنی جاسوسی اور ٹیلی فون کالوں کی نگرانی کے انکشافات پر چراغ پا ہیں۔
لیکن روس کی حکومت نے اطالوی اخبار کی اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے یورپ-امریکہ تنازع سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
روسی حکومت کے ایک ترجمان نے ایک مقامی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی حکومت نہیں جانتی کہ اس پر عائد کیے جانے والے اس الزام کی بنیاد کیا ہے اور اس کی تحقیقات کس نے کی ہیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ ماسکو پر عائد کیا جانے والا یہ الزام یورپی حکومتوں اور واشنگٹن کے درمیان جاری تنازع سے توجہ ہٹانے کی ایک ایسی کوشش ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔
اطالوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ یورپین کونسل کے صدر ہرمن وین رومپی اور یورپی یونین کے دیگر مندوبین نے روس کے دورے سے واپسی پر اپنی 'سکیورٹی ڈی بریفنگ' کے دوران میں حکام کو بتایا تھا کہ اجلاس کے میزبانوں نے انہیں بطورِ سووینئر فون کو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کرنے والی 'یو ایس بی کیز' اور کیبلز دی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق اس انکشاف کے بعد یورپی یونین کے حکام کی درخواست پر جرمنی کے انٹیلی جنس اداروں نے ان ڈیوائسز کی تفصیلی چھان پھٹک کی تھی جس کے دوران میں انکشاف ہوا تھا کہ یہ ڈیوائسز خفیہ طور پر موبائل اور کمپیوٹر کے ڈیٹا کی نگرانی کر رہی تھیں۔
ایک اور اطالوی اخبار 'لا اسٹامپا' نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ان ڈیوائسز کی چھان پھٹک کے دوران ان میں ردو بدل کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ ان کے ذریعے روسی جاسوس کتنا اور کس قسم کاڈیٹا اکٹھا کرنے میں کامیاب رہے۔
خیال رہے کہ دنیا کے 20 بڑی معاشی طاقتوں کے سربراہی اجلاس کے شرکا کی جاسوسی کا یہ پہلا اسکینڈل نہیں۔ اس سے قبل رواں برس جولائی میں برطانوی اخبار 'گارڈین' نے دعویٰ کیا تھا کہ 2009ء میں ہونے والے 'جی20' سربراہی اجلاس کے موقع پر برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے بھی اجلاس میں شریک مندوبین کی جاسوسی کی تھی۔
روس پر جاسوسی کا یہ الزام اٹلی کے ایک روزنامے 'کوریرے ڈیلا' نے رواں ہفتے اپنی ایک رپورٹ میں عائد کیا تھا۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اجلا س میں آنے والے سیکڑوں غیر ملکی مندوبین کو ٹیڈی بیئرز، ڈائریوں اور یو ایس بی کیز بطور سووینئر تحفے میں دی گئی تھیں جنہیں جاسوسی کے لیے استعمال کیا گیا۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق 5 اور 6 ستمبر کو سینٹ پیٹرز برگ میں ہونے والے اجلاس کے منتظمین نے کم از کم تین سو سے زائد ایسی اشیا شرکا کو تحفتاً دی تھیں جن میں روسی انٹیلی جنس اداروں نے جاسوسی کے آلات چھپائے تھے۔
اطالوی اخبار کے مطابق ان جاسوسی کے آلات کا انکشاف گزشتہ ماہ اس وقت ہوا تھا جب یورپین کونسل کے سکیورٹی حکام نے اجلاس میں شریک مندوبین سے ان کی واپسی پر پوچھ گچھ کی تھی۔
روس پر جاسوسی کے یہ الزامات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب یورپی رہنما امریکہ کی جانب سے اپنی جاسوسی اور ٹیلی فون کالوں کی نگرانی کے انکشافات پر چراغ پا ہیں۔
لیکن روس کی حکومت نے اطالوی اخبار کی اس خبر کی تردید کرتے ہوئے اسے یورپ-امریکہ تنازع سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
روسی حکومت کے ایک ترجمان نے ایک مقامی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ روسی حکومت نہیں جانتی کہ اس پر عائد کیے جانے والے اس الزام کی بنیاد کیا ہے اور اس کی تحقیقات کس نے کی ہیں۔
ترجمان نے کہا ہے کہ ماسکو پر عائد کیا جانے والا یہ الزام یورپی حکومتوں اور واشنگٹن کے درمیان جاری تنازع سے توجہ ہٹانے کی ایک ایسی کوشش ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔
اطالوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ یورپین کونسل کے صدر ہرمن وین رومپی اور یورپی یونین کے دیگر مندوبین نے روس کے دورے سے واپسی پر اپنی 'سکیورٹی ڈی بریفنگ' کے دوران میں حکام کو بتایا تھا کہ اجلاس کے میزبانوں نے انہیں بطورِ سووینئر فون کو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کرنے والی 'یو ایس بی کیز' اور کیبلز دی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق اس انکشاف کے بعد یورپی یونین کے حکام کی درخواست پر جرمنی کے انٹیلی جنس اداروں نے ان ڈیوائسز کی تفصیلی چھان پھٹک کی تھی جس کے دوران میں انکشاف ہوا تھا کہ یہ ڈیوائسز خفیہ طور پر موبائل اور کمپیوٹر کے ڈیٹا کی نگرانی کر رہی تھیں۔
ایک اور اطالوی اخبار 'لا اسٹامپا' نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ان ڈیوائسز کی چھان پھٹک کے دوران ان میں ردو بدل کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا لیکن تاحال یہ واضح نہیں کہ ان کے ذریعے روسی جاسوس کتنا اور کس قسم کاڈیٹا اکٹھا کرنے میں کامیاب رہے۔
خیال رہے کہ دنیا کے 20 بڑی معاشی طاقتوں کے سربراہی اجلاس کے شرکا کی جاسوسی کا یہ پہلا اسکینڈل نہیں۔ اس سے قبل رواں برس جولائی میں برطانوی اخبار 'گارڈین' نے دعویٰ کیا تھا کہ 2009ء میں ہونے والے 'جی20' سربراہی اجلاس کے موقع پر برطانوی خفیہ ایجنسیوں نے بھی اجلاس میں شریک مندوبین کی جاسوسی کی تھی۔