ایسے وقت میں جب کہ امریکہ، یورپی یونین، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور جاپان نے یوکرین کے معاملے پر روس کے بینکوں اور اس کے امیر ترین افراد کو پابندیوں کا ہدف بنایا ہے اور جرمنی نے روس کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبے پر کام روک دیا ہے، روس نے کیف سے اپنے سفارت خانے سے اہل کاروں اور عملے کو واپس بلانے کا حکم جاری کیا ہے اور یوکرین میں موجود اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ بھی ملک چھوڑ دیں۔
جاری محاذ آرائی میں بدھ کے روز اُس وقت مزید اضافہ ہوا جب صدر ولادیمیر پوٹن کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ اپنے ملک سے باہر فوجی طاقت کا استعمال کرسکتے ہیں۔
مبصرین کے مطابق تنازع کے حل کے لیے سفارتی کوششوں نے بظاہر دم توڑ دیا ہے اور ممکنہ تباہ کُن" لڑائی" کے آثار نمایاں ہیں۔ ادھر، امریکہ اور اس کے کلیدی یورپی اتحادیوں نے منگل کے روز روس پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں کے ساتھ ملنے والی سرحد سے اپنی فوج اندر داخل کر رہا ہے، یہ وہ مرحلہ ہے جسے 'سرخ لکیر 'عبور کرنا قرار دیا جا رہا ہے؛ اور کئی حلقوں نے اسے" حملے" کے آغاز کا نام دیا ہے۔
روس کے سرکاری بندوبست میں کام کرنے والے خبررساں ادارے،' تاس' نے خبر دی ہے کہ روس نے یوکرین سے اپنے اہل کاروں اور سفارتی عملے کو باہر نکالنا شروع کر دیا ہے، اس سے قبل روسی وزارت خارجہ نےخطرات کا حوالہ دیتے ہوئے انخلا کے منصوبےکا اعلان کیا، تاہم خطرات کی نوعیت نہیں بتائی گئی۔
SEE ALSO: یوکرین پر روسی حملے کے جواب میں ایسی پابندیاں لگائیں گے جن پر سال 2014 میں غور نہیں کیا تھا: امریکہاس کے ساتھ ہی کئی ہفتوں سے تحمل کی تاکید کے بعد یوکرین کے حکام نے بڑھتی ہوئی تشویش کا اشارہ دیا ہے۔ یوکرین کی وزارت خارجہ نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ وہ روس کا سفر نہ کریں اور وہاں موجود شہری فوری طور پر روس سے باہر نکل جائیں۔ یوکرین نے کہاہے کہ روس کی ''جارحیت'' کی صورت میں سفارتی مشن قونصل خانے کی خدمات انجام نہیں دے پائیں گے۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ منگل کی شام تک روسی سفارت خانے پر لہرانے والا روسی پرچم اتار لیا گیا تھا، جب کہ پولیس نے سفارت خانے کا گھیراؤ کر رکھاہے۔
یوکرین کی قومی سلامتی اور دفاع کی کونسل کے سربراہ نے ملک بھر میں ہنگامی صورت حال نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، جسے پارلیمان کی منظوری درکار ہو گی۔ اولکسی دانیلوف نے کہا ہے کہ علاقائی حکام خود ہی فیصلہ کریں آیا کون سے مزید اقدامات کی ضرورت ہو گی۔
ادھر جرمن وزیر خارجہ، انالینا بائربوک نے بدھ کے روز کہا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے اعلان کردہ پابندیاں محض پہلا قدم ہے ، اور بتایا کہ مزید تعزیرات عائد ہو سکتی ہیں۔ پابندیاں کلیدی اہمیت کی حامل ہیں جبکہ مغربی ممالک روس کے خلاف فوج کے استعمال کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔
SEE ALSO: روس اور یوکرین کے درمیان تنازع ہے کیا؟یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کلیبا نے مغربی ملکوں سے کہا ہے کہ وہ مزید انتظار نہ کریں۔بدھ کو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کلیبا نے کہا ہے ''ہم اپنے اتحادیوں سے کہیں گے کہ وہ روس کے خلاف مزید پابندیاں لگائیں، اور اس معاملے میں مزید دیر نہ کریں''۔
انھوں نے کہا کہ پوٹن کو روکنے کا یہی ایک طریقہ ہوگا کہ روس کے خلاف دباؤ بڑھایا جائے۔ اس کی معیشت اور قریبی ساتھیوں کو ہدف بنایا جائے۔ مزید دباؤ ڈالیں۔ سخت دباؤ ڈالا جائے، یہی وقت ہے''۔
امریکہ، نیٹو ممالک، یورپی یونین اور دنیا بھر کے ملکوں کی جانب سے روس کے خلاف پابندیاں لگنے کی بظاہر پرواہ نہ کرتے ہوئے، اقوام متحدہ میں روس کے سفیر، انتولی ایتونوف نے فیس بک پر ایک بیان میں کہا ہے کہ ''پابندیوں سے مسائل حل نہیں ہو سکتے''۔
بقول روسی سفیر، واشنگٹن میں کوئی شخص یہ توقع نہیں کرسکتا کہ پابندیوں کے خوف سے روس اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کرے گا۔
روس کی وزارت خارجہ نے بھی تعزیرات کے معاملے پر کوئی رد عمل نہیں دیا۔ بیان میں صرف ا تنا کہا گیاہے کہ روس نے ہمیشہ یہ ثابت کیا ہے کہ اسے پابندیوں کی پرواہ نہیں ہوتی، ہم نقصان میں کمی لانے کے طریقے جانتے ہیں۔
(اس خبر کا مواد ایسو سی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)