امریکہ نے منگل کے روز روس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس پر اس سے کہیں سخت اور تیز تر پابندیاں عائد کی جائیں گی جو سال 2014 میں کرائمیا کو یوکرین سے علیحدہ کرنے کے بعد لگائی گئی تھیں۔
واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے قومی سلامتی کے ایک عہدیدار نے بتایا:
’’ ہم ان پابندیوں پر عمل درآمد کے لیے تیار ہیں جن پر سال 2014 میں غور نہیں کیا گیا تھا‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ماضی کی مرحلہ وار پابندیوں کی بجائے اب ہم شروع ہی اوپر کی حد سے کریں گے اور ان پابندیوں کو برقرار رکھیں گے۔
صدر جو بائیڈن نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ وہ خود روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے خلاف بھی پابندیاں عائد کریں گے اگر انہوں نے روس پر حملہ کیا تو۔
وائس آف امریکہ کے لیے پیٹسی وداکوسوارا اور کین بریڈمئیر کی رپورٹوں کے مطابق، سکیورٹی عہدیدار نے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ ایکسپورٹ کنٹرول نافذ کرنے کی بھی تیاری کر رہا ہے جس سے روسی معیشت ہل کر رہ جائے گی۔
عہدیدار نے روس کے لیے برآمدات پر پابندیوں کو ان الفاظ میں بیان کیا:
’’ آپ برآمدات میں پابندیوں کو وسیع تر معنوں میں امریکہ کے قومی سلامتی سے جڑے مفادات کی مد میں تجارتی پابندیوں کے طور پر دیکھ سکتے ہیں‘‘
انہوں نے بتایا کہ اہم ایسی پابندیوں کو روس سے مختلف اشیا کے ایکسپورٹ کو روکنے کے لیے استعمال میں لاتے ہیں۔ اگر آپ امریکہ میں قائم سافٹ وئیر ٹیکنالوجی کی عالمی سطح پر غلبے کو دیکھیں، ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایکسپورٹ کنٹرول کے لیے جو آپشنز دیکھ رہے ہیں وہ پوٹن کی طرف سے اپنی معیشت کو صنعت پر استوار کرنے کے دفاعی مقاصد کو بری طرح نقصان پہنچائیں گے۔ اور یہ پابندیاں ان شعبوں کو تباہ کریں گی جو ان کے لیے اہم ہیں۔ بھلے یہ مصنوعی ذہانت کا شعبہ ہو، کوانٹم کمپیوٹنگ کا، دفاع، ایرو سپیس یا اسی طرح کے دیگر اہم شعبے ہوں۔‘
وائس آف امریکہ کے لیے راب گارور کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس نے اب اس بارے میں اشارے دینا شروع کر دیے ہیں کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں امریکہ روس پر کس نوعیت کی پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔
مصدقہ میڈیا رپورٹس کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے امریکہ میں بننے والے اعلی ٹیکنالوجی سے مصنوعات اور پرزوں کی روس کی لیے فروخت پر پابندی کی تیاری پر کام شروع کر دیا ہے۔
یہ اقدام اسی نوعیت کا ہے جیسے ٹرمپ انتظامیہ نے سال 2020 میں چین کی ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ہوائی کے خلاف اٹھایا تھا۔ اس اقدام کے تحت فروخت کنندگان کو موبائل ٹیلی فون بنانے کے لیے استعمال ہونے والے ’ سیمی کنڈکٹرز‘ کی فراہمی سے روک دیا گیا تھا۔ اس پابندی کے ہووائی کمپنی پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوئے تھے۔ سمارٹ فون بنانے میں دنیا میں بڑا نام رکھنے والی یہ کمپنی اس پابندی کے بعد اب دنیا میں دسویں نمبر پر آ چکی ہے
روس کی جانب سے یوکرین سے کرائمیا کو الگ کرنے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کم شدت کی پابندیاں عائد کی تھیں جو آخر میں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی تھیں اور یہ علاقہ بدستور روس کے کنٹرول میں ہی رہا۔
سکیورٹی کے ایک اور عہدیدار نے بتایا کہ امریکہ دنیا میں توانائی پیدا کرنے والے دیگر ممالک کے ساتھ بھی کام کر رہا ہے تاکہ روس اگر مغربی اتحادی ممالک کو قدرتی گیس کی سپلائی بند کرے تو ان ممالک کو ایندھن فراہم کیا جا سکے۔
روس پر ممکنہ پابندیوں کا خاکہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صدر جو بائیڈن اور یورپی اتحادی راہنماوں نے روس کی طرف سے کسی ممکنہ جارحیت کا ردعمل پر تفصیل سے وڈیو لنک پر گفتگو کی ہے اور امریکی صدر نے اس ورچول ملاقات کو ’ بہت بہت بہت اچھا‘ قرار دیا ہے۔ اسی اثنا میں روس ن امریکی فوجیوں کے ’ہائی الرٹ‘ پر رکھنے کے پینٹگان کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کر رہاے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق روس نے منگل کے روز کہا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے ساڑھے آٹھ ہزار فوجیوں کی یورپ میں تعیناتی کے لیے انہیں ’ الرٹ ‘ پر رکھنے جیسے اقدامات کو انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روس کے اس الزام کو دوہرایا کہ امریکہ اس کشیدگی میں اضافہ کر رہا ہے جو یوکرین سرحد کے نزدیک روس یوکرین کے درمیان پائی جاتی ہے۔
دوسری جانب صدر جو بائیڈن نے پیر کی شام یورپ کے اہم راہنماوں کے ساتھ وڈیو لنک پر ایک اجلاس میں شرکت کی اور یوکرین پر روس کے حملے کے خطرات پر تبادلہ خیال کیا۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر بائیڈن نے بتایا کہ یہ ملاقات ان کے الفاظ میں ’’ بہت بہت بہت اچھی رہی اور تمام یورپی رہنماوں کے درمیان مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔‘‘
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن کے دفتر نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جو صدر بائیڈن کے موقف کی تائید کرتا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ اس ملاقات میں راہنماوں نے روس کی طرف سے بڑھتی ہوئی مخاصمت کے ماحول میں بین الاقوامی اتحاد پر اتفاق کیا ہے۔
امریکہ کے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے گزشتہ روز ساڑھے آٹھ ہزار امریکی فوجیوں کو ہائی الرٹ کردیا تھا تاکہ انہیں یوکرین پر روس کے حملے کی صورت میں نیٹو کی طرف سے جواب دینے والی فورسز میں شامل ہونے کے لیے مشرقی یورپ بھجوایا جا سکے۔
روس کے حملے کے جواب کا تعین نیٹو کرے گا
یوکرین سے متعلق ایک اور اہم پیش رفت میں امریکہ کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جوناتھن فائنر نے کہا ہے کہ یوکرین پر روس کے حملے کی صورت میں جوابی کارروائیوں سے متعلق تمام فیصلے نیٹو اتحاد کرے گا۔
رائٹرز کے مطابق منگل کے روز سی این این کے ساتھ ایک انٹرویو میں جوناتھن فائنر نے کہا کہ فورسز کہاں تعینات ہوں گی، اس کا فیصلہ نیٹو اتحاد کرے گا ۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ نیٹو جب بھی کوئی فیصلہ کرے گا، امریکہ اس پر عمل درآمد کے لیے فوری طور پر تیار ہوگا۔
صدر جو بائیڈن نے امریکی فوجوں کو یوکرین بھجوانے کے امکان کو مسترد کیا ہے۔ تاہم کہا ہے کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو ماسکو کو فوری طور پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر دی جائیں گی۔
یوکرین کے رہنماوں کا اپنی قوم کو پر امن رہنے پر زور:
دوسری جانب, ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، یوکرین کے رہنماوں نے اپنی قوم کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پڑوسی ملک روس کی جانب سے فوری حملے کے خدشات نہیں ہیں۔ تاہم، انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ حملے کے خطرات حقیقی ہیں۔ راہنماوں نے بتایا ہے کہ وہ امریکہ کی جانب سے منگل کو فوجی سازو سامان وصول کرنے کے لیے تیار ہیں جس سے ملک کا دفاع پہلے سےمستحکم ہو گا۔
(اس خبر میں شامل کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لیا گیا)