کیری نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تجویز پر سمجھوتا طے پانا ’بے انتہا مشکل‘ ہوگا
واشنگٹن —
روس کا کہنا ہے کہ جمعرات کو جنیوا میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اُن کے روسی ہم منصب کے مابین شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو محفوظ بنانے سے متعلق تجویز پر مذاکرات کے آغاز سے دو روز قبل، روس نے اپنی تجاویز پر مبنی منصوبہ امریکہ کے حوالے کر دیا ہے۔
سرگئی لاوروف نے اِن تجاویز کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی، تاہم اُنھوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران وہ اِس پر کیری سے گفتگو کریں گے۔
کیری نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تجویز پر سمجھوتا طے پانا ’بے انتہا مشکل‘ ہوگا۔
امریکی اسلحے کے ماہرین پر متشمل ایک ٹیم اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار کے ہمراہ جنیوا جائے گی، جہإں موجودگی کے دوران وہ شام کے بارے میں اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی، لخدار براہیمی کے ساتھ بھی ملاقات کریں گے۔
دریں اثنا، ویٹو اختیارات کے حامل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان، جن کا تعلق برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ سے ہے، اقوام متحدہ کی قرارداد پر بات چیت کی تیاری کر رہے ہیں، جس کا مقصد روسی منصوبے پر فوری عمل درآمد ہے۔
روس پہلے ہی اُن کلیدی نکات کو مسترد کر چکا ہے جِن کے بارے میں امریکہ اور فرانس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر عمل لازمی نہیں، جس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے شام کے خلاف فوجی طاقت سے متعلق سخت الفاظ استعمال کرنا شامل ہے۔
اس سے قبل، بدھ ہی کے روز اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شام میں زیادتیوں کے ازالے میں ناکامی عالمی ادارے اور سلامتی کونسل کے ارکان کی عزت پر حرف آنے کے مترادف ہوگا۔
منگل کے اپنے خطاب میں، امریکی صدر براک اوباما نے روسی تجویز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کی طرف سے اس پر رضامند ہونا ایک حوصلہ کُن عندیہ ہے۔ تاہم، اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ اگر سفارت کاری ناکام ہوتی ہے تو امریکہ فوجی کارروائی کے لیے تیار ہے۔
سمجھوتے کے تحت، شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے لیےاقوام متحدہ کے حوالے کرے گی جب کہ امریکہ فوجی کارروائی کے اپنے منصوبے کو روک دے گا۔
مسٹر اوباما نے کانگریس سے کہا ہے کہ شام کے خلاف فوجی کارروائی کے اختیار سے متعلق رائے شماری کا معاملہ مؤخر کردے، تاکہ سفارت کاری کو موقع مل سکے۔
سرگئی لاوروف نے اِن تجاویز کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی، تاہم اُنھوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران وہ اِس پر کیری سے گفتگو کریں گے۔
کیری نے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق تجویز پر سمجھوتا طے پانا ’بے انتہا مشکل‘ ہوگا۔
امریکی اسلحے کے ماہرین پر متشمل ایک ٹیم اعلیٰ ترین امریکی سفارت کار کے ہمراہ جنیوا جائے گی، جہإں موجودگی کے دوران وہ شام کے بارے میں اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی، لخدار براہیمی کے ساتھ بھی ملاقات کریں گے۔
دریں اثنا، ویٹو اختیارات کے حامل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان، جن کا تعلق برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکہ سے ہے، اقوام متحدہ کی قرارداد پر بات چیت کی تیاری کر رہے ہیں، جس کا مقصد روسی منصوبے پر فوری عمل درآمد ہے۔
روس پہلے ہی اُن کلیدی نکات کو مسترد کر چکا ہے جِن کے بارے میں امریکہ اور فرانس کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی اس قرارداد پر عمل لازمی نہیں، جس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے شام کے خلاف فوجی طاقت سے متعلق سخت الفاظ استعمال کرنا شامل ہے۔
اس سے قبل، بدھ ہی کے روز اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا ہے کہ شام میں زیادتیوں کے ازالے میں ناکامی عالمی ادارے اور سلامتی کونسل کے ارکان کی عزت پر حرف آنے کے مترادف ہوگا۔
منگل کے اپنے خطاب میں، امریکی صدر براک اوباما نے روسی تجویز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کی طرف سے اس پر رضامند ہونا ایک حوصلہ کُن عندیہ ہے۔ تاہم، اُنھوں نے زور دے کر کہا کہ اگر سفارت کاری ناکام ہوتی ہے تو امریکہ فوجی کارروائی کے لیے تیار ہے۔
سمجھوتے کے تحت، شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت اپنے کیمیائی ہتھیار تلف کرنے کے لیےاقوام متحدہ کے حوالے کرے گی جب کہ امریکہ فوجی کارروائی کے اپنے منصوبے کو روک دے گا۔
مسٹر اوباما نے کانگریس سے کہا ہے کہ شام کے خلاف فوجی کارروائی کے اختیار سے متعلق رائے شماری کا معاملہ مؤخر کردے، تاکہ سفارت کاری کو موقع مل سکے۔