روس کی یوکرین میں کارروائیاں تیز، اپارٹمنٹ پر حملے میں 15 افراد ہلاک

چاسیو یار میں رہائشی عمارت روس کے راکٹ کا نشانہ بننے سے 15 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔

روس نے بھاری توپ خانے، راکٹ لانچرز اور ٹینکوں سے یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارکیف کو نشانہ بنایا ہے جب کہ یوکرین کے مشرقی حصے میں بھی بمباری کی ہے جس کے باعث ایک اپارٹمنٹ میں کم از کم 15 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

یوکرین کے جنرل اسٹاف نے پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں بتایا ہے کہ ہفتے کی شب یوکرین کے مشرقی قصبے چاسیو یار میں پانچ منزلہ عمارت پر راکٹ حملے سے 15 افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ درجنوں افراد کے ملبے میں پھنسے ہونے کا خدشہ ہے۔

بیان کے مطابق خارکیف میں بھی ایک اپارٹمنٹ روسی میزائل کا نشانہ بنا ہے البتہ اس واقعے میں کسی جانی نقصان کی اطلاعات موصول نہیں ہوئی ہیں۔

ہفتے کی شب ہونے والی ہلاکتیں روس کے ان حالیہ حملوں میں سے ایک ہیں جن میں بڑے پیمانے پر عام شہریوں کی جانیں گئی ہیں۔ البتہ روس کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف یوکرین میں فوجی نقل و حرکت اور تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے۔

چاسیو یار پر ہونے والے حملوں میں شہریوں کی ہلاکت سے قبل جون کے اواخر میں کرمینچک کے علاقے میں ایک اپارٹمنٹ سے متصل شاپنگ مال اور رواں ماہ اوڈیسا کے علاقے میں تفریحی مقام پر ہونے والے حملوں میں 19 عام شہری ہلاک ہوئے تھے۔

چاسیو یار یوکرین کے جنوب مشرقی شہر کراماتورسک سے لگ بھگ 20 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ روسی افواج نے گزشتہ ہفتے لوہانسک میں اپنی فتح کا اعلان کیا تھا۔ اس لیے روس اگر ڈونیٹسک سے متصل علاقے کی جانب پیش قدمی جاری رکھتے ہیں تو کراماتورسک شہر متوقع طور پر ان کا ترجیحی ہدف ہوگا۔

چاسیو یار میں روس کا نشانہ بننے والے اپارٹمنٹ پر امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کے چیف آف اسٹاف آندری یرماک نے چاسیو یار میں ہونے والے حملے کو ’دہشت گردی‘ قرار دیا ہے اور روس کو دہشت گردی کو فروغ دینے والی ریاست قرار دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

اگرچہ روس شہریوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتا ہے لیکن روسی بمباری سے یوکرین کے کئی شہر، قصبے اور دیہات ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیں۔

روس کے حملوں میں تیزی

یوکرین کے مطابق روس نے گزشتہ ہفتے سے اس کے مشرق اور جنوبی حصوں پر حملے تیز کردیے ہیں۔

یوکرینی حکام کا کہنا ہے کہ روس نے لوہانسک اور ڈونیٹسک پر حملے کیے ہیں جب کہ برطانوی وزارتِ دفاع کے مطابق ماسکو نے پورے روس سے اپنی ریزرو فوج کو جمع کرکے یوکرین کے نزدیک جمع کرنا شروع کردیا ہے۔

یوکرینی حکام کے مطابق روس نے دونباس میں کارروائی معطل کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر تاحال عمل نہیں کیا گیا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق یوکرین کی فوج ملکی برآمدات کے مرکزی شہر اوڈیسا کے راستے میں ایک اہم دریائی بندرگاہ میکولیو کا بھرپور دفاع کر رہی ہے۔

روسی بحریہ نے اوڈیسا کے بحری راستوں پر ناکہ بندی کررکھی ہے جس کے باعث یوکرین سے اناج کی برآمد رکی ہوئی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کیا یورپ دوسری سرد جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے؟

’روس کو ساز و سامان کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے‘

گزشتہ ہفتے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو اپنے ایک انٹرویو میں برطانیہ کے لیے روس کے سفیر اندری کیلن نے کہا تھا کہ روس یوکرین کے جنوبی ساحلی علاقے سے فوج پیچھے ہٹانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا اور جلد ہی پورے مشرقی خطے ڈونباس میں یوکرین کو شکست دے گا۔

روسی سفیر کا کہنا تھا کہ روس ڈونباس کو یوکرین سے آزادی دلوائے گا۔

تاہم برطانوی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ یوکرین پر حملے جاری رکھنے کے لیے روس کو ممکنہ طور پر آلات اور ساز و سامان کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

وزارت دفاع کے مطابق روس جو ایم ٹی ایل بی گاڑیاں یوکرین بھیج رہا ہے وہ 1950 کی دہائی میں توپ خانے کی نقل و حرکت کے لیے بطور ٹریکٹر ڈیزائن کی گئی تھیں۔ روس خود ان گاڑیوں کو توپ خانے کی نقل و حرکت کے لیے ناموزوں قرار دے چکا ہے۔

برطانیہ میں یوکرین کے فوجیوں کی تربیت

دوسری جانب برطانوی فوج نے اگلے محاذوں پر روس کا مقابلہ کرنے کے لیے یوکرینی فوجیوں کو تربیت فراہم کرنے کا پروگروام شروع کردیا ہے۔

اس پروگروام میں متوقع طور پر 10 ہزار یوکرینی فوجیوں کو تربیت فراہم کی جائے گی۔

اس تربیت میں شریک ہونے والے ایک ہزار یوکرینی فوجیوں کے دستہ برطانیہ میں موجود ہے۔

اس سے قبل امریکہ بھی یوکرین کے توپ خانے اور راکٹ سسٹم میں بہتری لانے کے لیے 40 کروڑ کے ملٹری پیکج کا اعلان کرچکا ہے۔