شام کے سرکاری ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے بدھ کو شام میں شدت پسند تنظیم داعش کے کئی اہداف پر بمباری کی ہے۔ لیکن شامی حزبِ اختلاف نے الزام عائد کیا ہے کہ روس نے اپنی کارروائیوں میں باغیوں کے ٹھکانوں اور عام شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔
سرکاری ٹی وی نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے بدھ کو شام کے صوبوں حمص اور حما میں داعش کے کئی ٹھکانوں پر بمباری کی۔
سرکاری ٹی وی نے شامی فوجی ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے اپنی کارروائی شامی فضائیہ کے تعاون سے انجام دی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ حملے روس اور شام کے درمیان بین الاقوامی دہشت گردی اور داعش کےخاتمے کے لیے طے پانے والے معاہدے کے تحت کیے گئے ہیں۔
حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ
دریں اثنا شامی حزبِ اختلاف کے ایک رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی طیاروں نے جن علاقوں پر بمباری کی ہے وہ داعش یا القاعدہ سے منسلک جنگجو وں کے زیرِ قبضہ نہیں ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور باغی گروہوں کے نمائندہ اتحاد 'سیرین نیشنل کولیشن' کے سربراہ خالد خوجہ نے بدھ کو 'ٹوئٹر' پر اپنے ایک پیغام میں دعویٰ کیا ہے کہ روسی طیاروں کی بمباری کے نتیجے میں کم از کم 36 عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
خالد خوجہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی غرض سے نیویارک میں ہیں جہاں سے انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ روسی طیاروں کی بمباری سے کم از کم پانچ مقامات پر عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے بدھ کو شمالی حمص کے جس علاقے کو نشانہ بنایا ہے وہ علاقہ شامی باغیوں کے قبضے میں ہے جنہوں نے داعش کو وہاں سے ایک سال قبل نکال باہر کیا تھا۔
روس نے ہمیں نشانہ بنایا، باغی کمانڈر کا الزام
صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے شامی باغیوں کے ایک کمانڈر نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ روسی طیاروں کی بمباری سے ان کے آٹھ جنگجو زخمی ہوگئے ہیں۔
شامی حزبِ اختلاف سےمنسلک باغی فوج 'فری سیرین آرمی' کے ایک کمانڈر میجر جمیل الصالح نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو 'اسکائپ' کے ذریعے بتایا ہے کہ روسی طیاروں نے حما صوبے کے جس علاقے پر بمباری کی ہے وہاں 'فری سیرین آرمی' کا ہیڈکوارٹر قائم ہے۔
انہوں نے بتایا کہ روس نے حما کے جس شمالی علاقے پر بمباری کا دعویٰ کیا ہے وہاں داعش کا کوئی وجود نہیں اور وہ پورا علاقہ 'فری سیرین آرمی' کے قبضے میں ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق میجر جمیل 2012ء میں شامی فوج چھوڑ کر باغیوں کے ساتھ آن ملے تھے اور اس وقت 1500 سے زائد باغی ان کی کمان میں سرکاری فوج کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
'رائٹرز' نے فرانس کے ایک سفارتی اہلکار کے حوالے سے بھی دعویٰ کیا ہے کہ روسی جنگی طیاروں نے داعش کے بجائے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف سرگرم باغیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
'رائٹرز' کے مطابق فرانسیسی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ حمص شامی حزبِ اختلاف کےا تحاد سے منسلک باغی گروہوں کے قبضے میں ہے جس پر بمباری کا مطلب ہے کہ روس داعش کے خلاف نہیں بلکہ صدر اسد کی حمایت میں یہ فضائی حملے کر رہا ہے۔
امریکہ سے "رابطے بڑھانے" کی روسی پیشکش
دریں اثنا روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے پیش کش کی ہے کہ ان کا ملک شام میں "دہشت گرد گروہوں" کے خلاف کارروائی کو موثر بنانے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔
بدھ کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل سے خطاب میں سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس امریکہ کی قیادت میں قائم اس بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ "رابطے استوار" کرنے پر تیار ہے جو شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس نے امریکہ اور بین الاقوامی اتحاد کے دیگر ارکان تک یہ پیغام پہنچادیا ہے کہ روس دہشت گرد گروہوں کےخلاف جاری لڑائی کا ہر ممکن حد تک موثر بنانے کے لیے باہم رابطے بڑھانے پر آمادہ ہے۔
اس سے قبل بدھ کو روس کی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا تھا کہ شام میں موجود روسی جنگی طیاروں نے داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کی ہے۔
روسی طیاروں کی اس کارروائی سے چند گھنٹے قبل روسی پارلیمان نے صدر ولادی میر پیوٹن کو شام میں روسی فوج کی تعیناتی اور "دہشت گردوں" کے خلاف کارروائی کا اختیار دینے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی تھی۔
روسی حکومت کے ایک ترجمان نے سرکاری ٹی وی کو بتایا تھا کہ پارلیمان کے ایوانِ بالا میں ہونے والے رائے شماری شام میں روسی فضائیہ کے استعمال کے بارے میں تھی۔
"روس نے امریکی پروازیں روکنے کی درخواست کی"
قرارداد کی منظوری کےکچھ دیر بعد امریکی محکمۂ خارجہ کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ذرائع ابلاغ کوبتایا تھا کہ روسی طیاروں نے شام میں فضائی حملوں کا آغا زکردیا ہے۔
بعد ازاں امریکی محکمۂ خارجہ کےترجمان جان کربی نے ذرائع ابلاغ کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ روس نے فضائی کارروائیوں کے آغاز سے قبل امریکہ کو ان کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔
امریکی ترجمان کے بیان کے مطابق بغداد میں تعینات ایک روسی سفارتی اہلکار نے امریکی سفارت خانے کو بتایا ہے کہ روسی جنگی طیارے داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کے لیے شام میں اپنی پروازیں شروع کر رہے ہیں۔
ترجمان کے مطابق روسی اہلکار نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ روسی فضائی مشن کے دوران امریکی جنگی طیاروں کو شام کی حدود میں پرواز نہ کرنے دی جائے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے بیان میں روسی اقدام پر کوئی تبصرہ کیے بغیر کہا گیا تھا کہ امریکہ کی قیادت میں بننے والا بین الاقوامی اتحاد داعش کو تباہ کرنے کے ہدف کی تکمیل تک عراق اور شام میں اپنے فضائی حملے معمول کے مطابق جاری رکھے گا۔