روس کا یوکرین کے دارالحکومت کیف پر کروز اور بیلسٹک میزائلوں سے حملہ

فائل فوٹو

  • یوکرین کی فضائیہ نے روس کے میزائلوں کے ملکی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی متنبہ کر دیا۔
  • یوکرینی فوج کے مطابق روس نے چرنیہیو ریجن سے کروز اور بیلسٹک میزائل فائر کیے ہیں۔
  • انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مختلف مقامات پر دھماکے ہوئے ہیں۔ فورسز کام کر رہی ہیں۔
  • حکام نے شہریوں کو پناہ گاہوں میں رہنے کا انتباہ جاری کیا ہے۔

ویب ڈیسک — یوکرین کے دارالحکومت کیف میں بدھ کو دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں۔ دھماکوں سے قبل یوکرین کی ایئرفورس نے ملک میں ہنگامی الرٹ جاری کیا تھا۔

یوکرینی صدر کے چیف آف اسٹاف آندریو یارمک نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلی گرام پر ایک ایک بیان میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پوٹن اس وقت کیف پر میزائل حملہ کر رہے ہیں۔

یوکرین کی ایئر فورس نے اس سے قبل خبردار کیا تھا کہ "میزائل ملک کی فضائی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔‘‘

بیان میں شہریوں کو ہوشیار رہتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’’میزائل چرنیہیو ریجن سے کیف کی طرف آ رہا ہے۔"

یوکرینی فوج کے مطابق روس نے کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل فائر کیے ہیں۔

کیف کے ایڈمنسٹریٹر نے میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ شہر میں دھماکے ہوئے ہیں۔ ایئرڈیفنس فورسز کام کر رہی ہیں، شہری شیلٹرز میں رہیں۔

SEE ALSO: یوکرین کے فوجی انسٹی ٹیوٹ پر روس کے حملے میں کم از کم 51 افراد ہلاک، اسپتال ذرائع

کیف پر حملہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے فوجیوں نے روس کے ساتھ مل کر لڑائی میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے۔

ترجمان ویدانت پٹیل نے منگل کو نیوز بریفنگ کے دوران کہا کہ شمالی کوریا کے 10 ہزار سے زیادہ فوجی مشرقی روس بھیجے گئے ہیں جن میں سے بیشتر کو مشرقی کرسک اوبلاسٹ منتقل کیا جا چکا ہے۔

ترجمان کے مطابق شمالی کوریا کے فوجی روسی فورسز کے ساتھ مل کر لڑائی میں مصروف ہیں۔

امریکی محکمۂ دفاع پینٹاگان کے ترجمان میجر جنرل پیٹ ریڈار کے مطابق وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے منگل کو یوکرینی ہم منصب رستم عمروف سے بات کی اور میدانِ جنگ کی حکمتِ عملی اور امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ معاونت سے متعلق تبادلۂ خیال کیا۔

ترجمان نے کہا کہ وزیرِ دفاع نے اس عزم کا اظہار کیا کہ صدر جو بائیڈن یوکرین کی معاونت کے لیے پرعزم ہیں۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں اداروں 'ایسوسی ایٹڈ پریس'، 'رائٹرز' اور 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔