روس نے کہا ہے کہ اگر صدر بشار الاسد کی حکومت نے درخواست کی تو وہ اپنے لڑاکا فوجی دستے شام بھیجنے پر غور کر سکتا ہے۔
جمعے کو ماسکو میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ترجمان دمیتری پیسکوف نے کہا کہ اگر شامی حکومت نے ایسی کوئی درخواست کی تو باہمی تعلقات کی نوعیت اور دو طرفہ معاہدوں کے پیشِ نظر روس ضرور اس پر غور کرے گا۔
صحافیوں نے روسی ترجمان سے شامی وزیرِ خارجہ ولید المعلم کے گزشتہ روز کے بیان پر ردِ عمل مانگا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر ضرورت پڑی تو ان کی حکومت شامی افواج کی مدد کے لیے روس سے فوجی دستے بھیجنے کی درخواست کرے گی۔
دمیتری پیسکوف کا یہ بیان روسی قیادت کی جانب سے شام میں جاری بحران میں روس کی فوجی مداخلت پر آمادگی کا اب تک ملنے والا سب سے واضح اشارہ ہے۔
شامی وزیرِ خارجہ نے جمعرات کو شام کے سرکاری ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ شام میں فی الحال روس کے لڑاکا فوجی دستے موجود نہیں۔
تاہم ولید المعلم نے تصدیق کی تھی کہ روس نے حالیہ ہفتوں کےد وران شامی افواج کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فراہمی تیز کردی ہے۔
امریکی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ چند روز کے دوران روسی فوج کی شام میں نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ہے اور روسی فوج کے تیکنیکی عملے اور ہتھیاروں کے ماہرین کے علاوہ لڑاکا فوجی دستے بھی شام پہنچے ہیں۔
امریکی محکمۂ دفاع 'پینٹاگون' نے کہا ہے کہ شام پہنچنے والے روسی فوجی دستوں کی تعداد "کئی سو یا چند ہزار" تک ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روسی فوجی دستوں کی شام میں تعیناتی کے طریقہ کار سے ظاہر ہورہا ہے کہ انہیں فی الحال دفاعی مقاصد کے لیے تعینات کیا گیا ہے۔
پینٹاگون کے مطابق سیٹلائٹ تصاویر سے پتا چلا ہےکہ روس شام کے مغربی صوبے لتاکیہ میں ایک فوجی ہوائی اڈہ تعمیر کر رہا ہے لیکن روس یا شام کی حکومتوں نے تاحال اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی ہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک روس کی شام میں بڑھتی ہوئی فوجی موجودگی اور اسد حکومت کی فوجی امداد میں اضافے پر گہری تشویش کا شکار ہیں اور امریکہ نے پیش کش کی ہے کہ وہ روس کے ساتھ شام میں اس کی فوجی مصروفیات پر گفتگو کے لیے تیار ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کے صدر براک اوباما نے بھی شام میں روس کی فوجی موجودگی کی اطلاعات پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے نتیجے میں شام میں جاری خانہ جنگی کا حل تلاش کرنے کی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی کوششیں ناکام ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ اگر روس نے اسد حکومت کی مدد کے لیے اپنے فوجی دستے شام میں بھیجے تو اس کے نتیجے میں شام کا بحران مزید سنگین ہوگا اور وہاں ساڑھے چار برسوں سے جاری خانہ جنگی مزید پیچیدہ رخ اختیار کرجائے گی۔
روس شامی حکومت کا ایران کے بعد بین الاقوامی برادری میں دوسرا بڑا اور سرگرم اتحادی ہے جو اسد حکومت کے خلاف اقوامِ متحدہ میں پیش کی جانے والی سلامتی کونسل کی کئی قراردادوں کو ویٹو کرچکا ہے اور شامی حکومت کے خلاف کسی سخت بین الاقوامی کارروائی کی راہ میں بھی حائل رہا ہے۔