کئی برس بعد، روس نے بڑی تعداد میں بحری تعیناتی کی ہے جس کے باعث خدشات بڑھے ہیں، ایسے میں جب اُس کا چھوٹا بحری بیڑا ’انگلش چینل‘ سے ہوتے ہوئے ناورے سے آگے تک آ چکا ہے، جس کا رُخ مشرقی بحیرہٴ روم کی جانب ہے، تاکہ شام میں روس کی فضائی کارروائی میں مدد دی جاسکے۔
جب یہ چینل سے گزرے تو برطانیہ کی شاہی بحریہ نے جمعے کو روسی جہازوں کے بیڑے کا پیچھا کیا، جس کے لیے بتایا جاتا ہے کہ یہ نیٹو رکن ملکوں کی جانب سے کسی حد تک جوابی عمل تھا، جو مغربی فوجی اتحاد ہے۔
وکٹر مزین ماسکو میں ’انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز‘ میں سیاسی تجزیہ کار ہیں۔ بقول اُن کے، ’’عام تاثر یہ ہے کہ روس پھر سے عظیم طاقت کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، او ر یہ کہ وہ عالمی طور پر ہر جگہ موجود ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ شمالی بحری بیڑا، جو روسی فوج کا اہم ترین بیڑا ہے، وہ یہاں اپنی موجودگی نمایاں کرنا چاہتا ہے۔
اس بحری بیڑے کی قیادت روس کا واحد طیارہ بردار جہاز ’ایڈمرل کزویٹسوو‘ کر رہا ہے؛ جس میں ’پیٹر دی گریٹ‘ جوہری توانائی سے چلنے والا لڑاکا ’جنگی عرشے کا جہاز‘؛ تباہ کُن بیڑا،اور سب میرین شکن جہاز شامل ہیں۔ حکومت شام کے لیے ماسکو کی فوجی حمایت کے ایک حصے کے طور پر، یہ گروپ بحیرہٴ روم کی جانب بڑھ رہا ہے۔
روس کی بحریہ کی ویب سائٹ پر جمعے کے روز بتایا گیا ہے کہ بحری بیڑے کا گروپ مشرقی بحیرہٴ روم میں اُس کی مستقل بحری ٹاسک فورس میں شامل ہوگا، جو باغیوں اور اسلام نواز شدت پسندوں پر روسی اور شامی افواج کی بم باری میں مدد فراہم کرتا ہے۔
روس کی بحریہ نے کہا ہے کہ توقع ہے کہ یہ تعیناتی چار یا پانچ ماہ تک کے لیے ہے، جس کے بعد ’کزنیتسوو‘ مرمت کے کام کے لیے واپس ہوگا، جو دو سال تک جاری رہے گی۔
نیٹو سے تعلق رکھنے والے ایک سفارت کار نے رائٹرز خبر رساں ادارے کو بتایا ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے اب تک یہ روس کی جانب سے بڑی سطح کی تعیناتی تھی۔
نیٹو کے سکریٹری جنرل، ژان اسٹولنبرگ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ’کزنیتسوو‘ حلب پر کیے جانے والے حملوں میں حصہ لے گا، جس سے ’’انسانی جانی نقصان میں اضافے کا خدشہ ہے‘‘۔
روس کے دفاعی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ بحری جہاز شام میں روسی افواج کی حربی طاقت میں کسی خاص اضافے کا باعث نہیں بنے گا۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ تعیناتی تربیتی مقاصد کے لیے ہے، جو مغرب اور روسی اتحادیوں کے لیے طاقت کا مظاہرہ ہے۔