یوکرین جنگ کے نتیجے میں یورپی ممالک کی جانب سے روسی تیل پر لگنے والی پابندیوں کے مقابلے میں روس کو بھارت اور چین سمیت دیگر ایشیائی ممالک میں اپنا تیل بیچنے کی نئی منڈیاں ملنے لگی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق یورپی ممالک کی جانب سے شدید دباؤ کے باوجود ان ممالک میں روسی تیل کی فروخت سے روس کی برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جنگ کی وجہ سے امریکہ اور اس کے اتحادی کوشش کر رہے ہیں کہ روس کی مالی وسائل پر رسائی کو محدود کیا جاسکے۔
فن لینڈ کے شہر ہیلسنکی میں واقع سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ائیر کی ایک رپورٹ کے مطابق یوکرین جنگ کے پہلے ایک سو روز کے دوران روس نے تیل کی فروخت سے 97.4 ارب ڈالر کی آمدن حاصل کی۔ یہ آمدن مئی میں برآمدات کے کم ہونے کے باوجود ہے۔
SEE ALSO: یورپی یونین کا روسی تیل کی درآمد پر پابندی کے نفاذ کا اعلانرپورٹ کے مطابق ’’معدنی تیل کی مصنوعات کی برآمدات روس کی عسکری تیاری اور جارحیت کی ایک اہم وجہ ہے۔ ان مصنوعات کی فروخت سے ملنے والی آمدن کے ذریعے روسی بجٹ کا چالیس فیصد پورا کیا جاتا ہے۔‘‘
ایک ارب چالیس کروڑ افراد کے ملک، بھارت کی معدنی تیل کی طلب اس کی معیشت کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ اس برس بھارت نے چھ کروڑ بیرل روسی تیل خریدا ہے۔ پچھلے برس بھارت نے روس سے محض ایک کروڑ 20 لاکھ بیرل تیل خریدا تھا۔ دوسرے ایشیائی ممالک کے لیے بھی، جن میں چین بھی شامل ہے، روسی تیل کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے سری لنکا کے وزیراعظم رنیل وکرمے سنگھے نے کہا ہے کہ وہ ملک کے معاشی بحران کے دوران کار سرکار چلانے کے لیے روسی تیل خریدنے پر مجبور ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ دوسرے ذرائع سے تیل حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کا ملک روس سے خام تیل خریدنے پر تیار ہے۔ مئی کے اواخر میں سری لنکا نے روس سے ایک لاکھ ٹن کے قریب تیل خریدا تاکہ ملک کی واحد ریفائنری کو چلایا جا سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
روس اپنی برآمدات کو متنوع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پیر کے روز روسی سفیر ماروات پاولوو فلپائین کے نو منتخب صدر فرڈینینڈ مارکوس جونئیر سے ملے ہیں اور انہیں روسی تیل اور گیس کی پیشکش کی ہے۔ انہوں نے اس معاہدے کی شرائط پر گفتگو نہیں کی ہے۔
اس برس فروری میں روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد سے عالمی طور پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت اور دوسرے ممالک، روس کی جانب سے عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں 30 سے 35 ڈالر فی بیرل کم قیمت پر تیل دینے کی پیشکش کو قبول کر رہے ہیں۔ عالمی مارکیٹ میں برینٹ خام تیل کی قیمت اس وقت 120 ڈالر فی بیرل ہے۔
27 ممالک پر مشتمل یورپی ممالک کے اتحاد، یورپی یونین کی جانب سے اس برس کے اواخر تک روسی تیل کی درآمدات روکنے پر اتفاق کرنے کے بعد روس کے لیے ان منڈیوں کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے۔
SEE ALSO: پاکستان کی معاشی مشکلات پر قابو پانا کس حد تک ممکن ہے؟روسی تیل کی فروخت پر نظر رکھنے والے ادارے کپلر کے لیڈ مبصر نے اے پی کو بتایا کہ ایک نیا روج جنم لے رہا ہے۔ روسی علاقے یورل سے تیل، جو پہلے یورپ کی جانب جاتا تھا، اب ایشیا کی جانب بھیجا جا رہا ہے۔ ان ممالک میں بھارت سرفہرست ہے، اس کے بعد چین ہے۔ شپ ٹریکنگ رپورٹس کے مطابق ترکی بھی اس تیل کی اہم منزل ہے۔
بین الاقوامی توانائی کی تنظیم کے مطابق چین 2021 میں روسی تیل کی سب سے بڑی منڈی تھا۔ چین کی سرکاری اور نجی ریفائنریاں روزانہ سولہ لاکھ بیرل تیل روس سے خرید رہے تھے۔ یہ تیل سمندر سمیت پائیپ لائینز کے ذریعے چین بھیجا جا رہا ہے۔
بھارت کی روسی تیل کی درآمدات چین کے مقابلے میں ایک چوتھائی ہیں مگر یوکرین جنگ کے بعد سے بھارت کی درآمدات میں تیزی سے اضافہ واشنگٹن اور نئی دہلی میں اختلاف کا باعث بنا ہوا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کی تیل کی ضروریات کو سمجھتا ہے۔ امریکی سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کے حلیف اور شراکت دار روسی توانائی کی خرید میں اضافہ نہ کریں۔
اس خبر کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا۔