چین کی معیشت کے بارے میں نئے خدشات اورامریکہ میں شرح سود میں اضافے کے بعد وال اسٹریٹ کی اسٹاک مارکیٹ پیر کو سال کی کم ترین سطح پرگرگئی ہے۔
ایس این پی فائیو ہنڈرڈ انڈکس گزشتہ پانچ ہفتے سے مسلسل گررہا ہے اور پیر کو یہ دو اعشاریہ تین فیصد مزید کم ہوگیا۔فنانشنل مارکیٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ گرنے کا یہ سلسلہ گزشتہ ایک دہائی کے عرصے کا سب سے طویل سلسلہ ہے ، جس کی وجہ سے عالمی منڈیوں میں کھلبلاہٹ کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کی یہ تنزلی نہ صرف یورپ اور ایشیا میں ہے بلکہ خام تیل کی پرانی معیشت سے لے کر بٹ کوائن کی نئی معیشت تک ،سب کی قدر میں کمی آئی ہے۔
ڈاو جونز انڈسٹریل اوسط 374 پوائنٹس یا ایک اعشاریہ ایک فیصد کم ہوکرپیر کو ایسٹرن ٹائم سہ پہر تین بجے تک بتیس ہزار پانچ سو بیس پوائنٹ پر آگیا، جبکہ ٹیکنالوجی سے متعلق اسٹاکس میں فروخت کے رجحان کی وجہ سے نیس ڈیک کمپوزٹ انڈیکس تین اعشاریہ چار فیصد مزید کم ہوگیا۔ پیر کو تیز گراوٹ سے وال اسٹریٹ کا حجم اس سال کے اوائل کے ریکارڈ سے سولہ فیصد کم پر آگیاہے۔
دنیا بھر میں معیشت کی اس بحرانی کیفیت کی وجوہات جاننے کےلیے جب ہم نے ماہرین اقتصادیات سے بات کی تو انھوں نے بتایا کہ دنیا بھر میں کرونا کی وبا اور پھر اس کے بعد یوکرین کی جنگ کی وجہ سے عالمی معیشت کی نمو میں کمی آئی ہے جو دنیا بھر میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
واشنگٹن میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ایک سابق عہدیدار ڈاکٹر زبیر اقبال کہتے ہیں کہ فنانشنل مارکیٹ کے دو بنیادی ٹولز بانڈز اور اسٹاک ہیں۔ جب سود کی شرح کم ہوتو لوگ اسٹاک میں پیسہ لگاتے ہیں لیکن اگر شرح سود میں اضافہ ہوجائے تو یہی لوگ اسٹاک سے پیسہ نکال کر بانڈ ز کی خریداری میں لگادیتے ہیں جس سے اسٹاک مارکیٹ میں تنزلی آتی ہے، امریکہ میں حال ہی میں شرح سود میں اضافہ کیا گیاہے۔ دوسرے یہ کہ غیر یقینی صورتحال پیدا ہوجائے جیسا کہ یوکرین جنگ سے پیدا ہوئی ہے اس میں معاشی نمو متاثر ہوتی ہے سرمایہ کار اسٹاک سے پیسہ نکال کر اپنے سرمائے کو تحفظ دینے کے لیے بانڈز کی خریداری شروع کردیتے ہیں۔
ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا ہے کہ گزشتہ اور موجودہ مالی سال کی معاشی نمو کا موازنہ کیا جائے تو صورتحال اتنی بھی خراب نہیں۔عالمی سطح پر معاشی نمو میں کمی کی وجہ سے دنیا بھر میں اسٹاک مارکیٹ متاثر ہورہی ہیں ۔ اور عالمی اقتصادیات سست روی کا شکار ہے جس کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے لیکن اب دنیا بھر کی حکومتوں نے مہنگائی کنڑول کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا شروع کر دیے ہیں جس سے مہنگائی کنڑول ہونا شروع ہوجائے گی لیکن معاشی نمو بھی متاثر ہوگی ۔
انھوں نے کہا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے بھی عالمی سطح پر معاشی نمو میں کمی آئی ہے جس کے اثرات اسٹاک مارکیٹ پر واضح ہیں ۔ پوری دنیا اس صورتحال سے دوچار ہے اور چین بھی اس میں شامل ہے ۔ یہ غلط ہے کہ چین اس صورتحال سے متاثر نہیں ہوا۔ انھوں نے اس تصورکو بھی غلط قرار دیاکہ یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا اقتصادی طور پر دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجودہ صورتحال کب تک قائم رہے گی، اس کے بارے میں درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔۔
ٹوکیو جاپان میں انسٹیٹوٹ آف بزنس رسرچ کے فیلو ڈاکٹر عبدالمجید ودود کا موقف مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا اس وقت جس معاشی بحران سے گزررہی ہے یہ وسائل کے مقابلے میں اخراجات بڑھنے کی وجہ سے پیدا ہواہے۔انھوں نے اس بات سے بھی اتفاق نہیں کیا کہ موجودہ کساد بازاری سے چین کی اقتصادی نمو متاثر ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ چین کی توجہ اپنی معیشت پر ہے اور اس حوالے سے وہ اپنے تمام وسائل اس کی نمو پر صرف کررہا ہے جبکہ مغربی ممالک یورپ، امریکہ اور جاپان کی ترجیح جنگ اورکرونا کی وبا سے نمٹنے پر ہے اور وہ اپنے وسائل اسی پر خرچ کررہے ہیں ، جس کے نتیجے میں امکان یہی ہے کہ جنگ پر توجہ دینے والوں کی معیشت متاثر ہوگی اور چین کی معیشت فروغ پائے گی
ڈاکٹر عبدالمجید ودودنے کہا کہ یورپ35 فیصد توانائی کی اپنی ضروریات روسی تیل سے پوری کرتا ہے۔ اگر یہ اچانک بند ہوجائے تو معیشت پر اثرات تو مرتب ہونا لازمی امر ہے اور یورپ کو متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول میں ابھی برسوں لگیں گے لہذا توقع نہیں کہ یہ معاشی بحران مستقبل قریب میں کم ہوسکے۔
پاکستان کے معروف ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی نے وی او اے کے سوال پر کہا کہ کرونا کی وبا اور پھر یوکرین جنگ کے نتیجے میں دنیا بھر میں سپلائی چین متاثر ہوئی ہے ، ساتھ ہی حکومتیں کرونا کی وبا کے دوران اپنے لوگوں کی مدد نقد رقم سے کرتی رہی ہیں، جس کے معیشت پر اثرات سامنے آرہے ہیں۔ اشیا کی سپلائی میں کمی آئی تو مہنگائی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ۔ یہ صورتحال پوری دنیا میں ہے۔
قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ عالمی معیشت کی بحالی کا انحصار جنگ اور کرونا کی وبا کے مکمل خاتمے پر ہے ۔ ان کے مطابق جنگ نے عالمی معیشت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ایک بلاک سے دوسرے بلاک تک سپلائی میں خلل پڑ رہا ہے جس کے بعد یورپ کو سپلائی چین بحال کرنے کے لئے نیا ڈھانچہ ترتیب دینا پڑ رہا ہے لیکن اس میں وقت لگے گا اس لیے بحران سے نکلنے میں انہیں کئی برس لگ جائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ دنیا میں جاری اقتصادی بحران سے پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک زیادہ متاثر ہوں گے۔ پاکستان پہلے ہی شدید اقتصادی بحران سے گزرہا تھا اس میں مزید شدت آرہی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ گندم اور خوردنی تیل جیسی بنیادی ضرورت کی اشیا پاکستان کو درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ پاکستان کی ادائیگیوں کا توازن پہلے ہی منفی ہے۔ سپلائی چین متاثر ہونے اور ساتھ ہی ڈالر کی قیمتوں میں اضافے سے اس پر دباو بڑھے گا اور ملک میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔