روس میں گزشتہ ہفتے ہونے والی مسلح بغاوت نے جہاں یوکرین جنگ میں پھنسے صدر ولا دی میرپوٹن کے چلینجز میں اضافہ کر دیا ہے وہیں چین کے لیے بھی نئے سوالات اٹھائے ہیں کہ وہ کہاں تک امریکہ کی زیر قیادت مغرب کے مقابلے میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے میں ماسکو پر انحصار کر سکتا ہے۔
عالمی طاقتوں میں مسابقت پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ نے ایک عشرے کے دوران پوٹن کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے میں بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے تا کہ وہ ماسکو کی مدد سے چین کے بڑھتے ہوئے مفادات کا دفاع کرسکیں۔
لیکن بغاوت کے بعد کمزوری کی حالت میں ہونے والے واگنر باغی گروپ سے معاہدے نے پوٹن کی خامیوں کوبہت نمایاں کردیا ہے جبکہ اسے یوکرین جنگ میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کرنے میں بھی کئی دشواریوں کا سامنا ہے جن میں حکومتی عملداری پر گرفت کا کمزور ہونا اور روسی عوام میں یکجہتی کا مسئلہ بھی شامل ہیں۔
روسی مورخ اسٹیفن کاٹکن نے پوٹن کی حکومت کو "کھوکھلا مگر مضبوط" قراردیتے ہوئے "فارن افیئرز" میگزین کے ساتھ انٹرویو میں اس بات کی نشاندہی کی کہ صدر پوٹن کے سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں روس کی حکومت چلے گی تو سہی لیکن پوٹن نے اپنی حیثیت اور طاقت کا گھمبیر تصور کھو دیا ہے جسے ایک بار کھو دیا جائے تو اسے دوبارہ حاصل کرنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔""
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن میں امریکن یونیورسٹی کے "اسکول آف انٹرنیشل سروس" کے پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں کہ چین یقیناً پوٹن کی کمزورہوتی ہوئی پوزیشن پر فکرمندہے کیونکہ بیجنگ کے لیے اپنے بین الااقوامی اثرونفوز کوبڑھانے کے ضمن میں یہ بہت فیصلہ کن لمحہ ہے۔
صدر شی جن پنگ کی پالیسیوں پر روس کی بگڑتی ہوئی خستہ حالی کے مضمرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا "اس وقت کے عالمی تناظر میں کشمکش اور مسابقت کے حوالے سے چار بڑی طاقتیں ہیں۔ ایک طرف امریکہ اور بھارت ہیں اور دوسری طرف چین اور روس ہیں۔ چین کے لیے روس کی وہی اہمیت ہے جو امریکہ کے لیے بھارت کی ہے۔"
پروفیسر اکبراحمد، جو برطانیہ میں پاکستان کےسفیر رہ چکے ہیں اور اس وقت امریکن یونیورسٹی کی ابن خلدون اسلامک اسٹڈیز کے چیئرمین ہیں، کہتے ہیں کہ روس کی یوکرین میں جنگ کو بھی عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
موجودہ وقت کو تاریخ کا بہت ہی نازک موڑ قرار دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے اور بھارت ،امریکی تعاون سے تیزی سے ابھر رہا ہے جبکہ چین نے اپنےآپ کو کئی شعبوں میں ایک عالمی طاقت کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن اس ساری صورت حال میں روس کا اقتصادی اور اندرونی طور پر کمزور ہونا ایک بڑا لمحہ تشویش ہے کیونکہ پوٹن کے پاس ایٹمی ہتھاروں کے علاوہ بہت سا اسلحہ ہے جو کہ عدم توازن کی صورت میں ایک خطرناک امکان ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
واشنگٹن کے" یوایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں یورپ اور روسی امور کی ماہرین حید ایشبی اور میری گلانٹز نے ایک تجزیہ میں کہا کہ واگنر گروپ کی بغاوت اور اس کے کمانڈر ییوجینی پریگوژین سے کمزوری کی پوزیشن کے معاہدے نے پوٹن کے بارے میں ایک مضبوط رہنما ہونے کے تصور کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔
ان دو ماہرین کے مطابق یہ سب ایسے وقت میں ہوا ہےجب پوٹن افریقی رہنماوں کے ساتھ اگلے ماہ اجلاس کرنے والے ہیں، چین کے ساتھ مزید قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دنیا کے کئی خطوں میں یوکرین جنگ پر حمایت کی تلاش میں ہیں۔
"بروکنگز انسٹی ٹیوٹشن" کی ایشیا ئی امور کی ماہر پیٹریشیا کم نے اپنے تبصرے میں نوٹ کیا کہ بغاوت کے بعد کی صورت حال نےاس حقیقت کو بےنقاب کر دیا ہے کہ اب پوٹن کو بین الااقوامی سطح کے علاوہ روس میں اندرونی طور پر بھی بڑے چیلنجز درپیش ہیں اور اس عنصر نے چین کے لیے ممکنہ مضمرات کو بہت بڑھادیا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ شی جن پنگ کی حکمرانی میں بیجنگ نے ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ چین نے ماسکو کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف توازن پیدا کرنے اور ان کے اتحاد کو کمزور کرنے میں اپنے اہم پارٹنر کے طور پر دیکھا ہے کیونکہ چین اور روس موجودہ عالمی نظام کو مغربی مرکزیت پر مبنی دیکھتے ہیں۔
ان کے بقول شی اور پوٹن کے قریبی ذاتی تعلقات ہیں اور وہ گزشتہ دہائی میں درجنوں بار ملے ہیں اور دونوں اپنے ملکوں کی "لامحدود شراکت داری" کی براہ راست نگرانی کرتے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
واضح رہے کہ چین اور روس کے درمیان 2,600 میل طویل سرحد ہے اور پیٹریشیا کم کے مطابق روس میں عدم استحکام کا چین پر ممکنہ طور پر اثر انداز ہونا بیجنگ کے لیے اولین خطرہ ہے۔ یہاں تک کہ چینی رہنماوں کو پریشانی ہےکہ روس کےنیوکلر ہتھیاروں کا غیر محفوظ ہونا چین کی سلامتی کے لیے خطرہ ہوگا۔
اسٹریٹیجک امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہر چند کہ بیجنگ نے روسی بغاوت پر کھل کر کوئی تبصرہ نہیں کیا چین کے لیے اس کے اثرات عالمی تناظر میں بہت اہم ہیں۔ مبصرین کے مطابق ایک طرف تو چین کی روس سے یوکرین جنگ کے دوران دوستی سے عالمی سطح پر بیجنگ کی ساکھ کو حالیہ مہینوں میں ٹھیس پہنچی ہے اور دوسری طرف مغرب سے اس کے تعلقات میں کشیدگی آئی ہے۔ ایسے میں چین یہ سوچنے پر مجبور ہو سکتا ہے کہ کمزور ہوتے روس سے اس کے تعلقات کہیں بیجنگ کے لیے بوجھ نہ ثابت نہ ہوں۔
دوسری طرف صدر پوٹن نے اپنے اتحادیوں کو بغاوت سے پیداہونے والی صورت کے بعد یقین دلایا ہے کہ روسی قوم اس وقت متحد ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
شنگھائی تعاون تنظیم یعنی ایس سی او سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روسی عوام اور معاشرے نے مسلح بغاوت کے ردعمل میں یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔
لیکن کیا یہ یقین دہانی روس کے اتحادی ممالک کے لیے کافی ہے؟ پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں کہ چین کے مفادات ہر گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں۔
"اگر ہم چین کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس نے ہمیشہ اپنی پالیسی کو دائروں کی شکل میں بنایا اور اپنایا ہے۔ سب سے پہلے ملک میں امن اور استحکام، پھر ہمسائے میں مفادات، اس کے بعد بین الااقوامی سطح پر مفادات اس کے لیے ترجیحات رہی ہیں۔ لیکن شی کی زیر قیادت یہ چین کی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ بیجنگ اپنے اثرو رسوخ کو گلوبل سطح پر پھیلانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اس سلسلے میں، وہ کہتے ہیں کہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت چین اور پاکستان اقتصادی راہداری بھی چین کے زیر اثر علاقے کے حوالے سے اہم ہے۔ اس کے علاوہ، پروفیسر اکبر احمد کہتے ہیں، چین افغانستان میں بھی قدم جمارہا ہے جہاں اسے روس کی حمایت درکارہے۔
" پوٹن اور روس کی صورت حال چین کے لیے تو اہم ہے ہی ۔ لیکن اس صورت حال سے نمٹنا ایک بہت ہی سنجیدہ اور بڑا کام ہے ۔ تمام طاقتوں کو بہت بڑ ے تناظر میں سوچنا ہوگا کیونکہ دنیا مہلک ہتھیاروں کے اس دور میں پہلی جنگ عظیم کی وجہ بننے والے سن 1916 کے خطرناک واقعات سے بننے جیسے حالات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔"