یوکرین پر حملے کے بعد اگرچہ روس کی سرحدوں کے اس طرف جنگ کے اثرات کے بارے میں خدشات انتہائی قلیل تھے، لیکن جنگ کے اثرات مغربی اقوام اور کارپوریشنز کی جانب سے بطور سزا روس پر لگائی گئی معاشی پابندیوں کی صورت میں روسیوں کی زندگیوں کو تبدیل کر رہے ہیں۔
24 فروری سے یوکرین کے خلاف شروع کی گئی روسی جارحیت کی وجہ سے عام روسی بھی روزگار کے حصول کے لیے مشکلات کا شکار ہیں۔ ماسکو کے بڑے بڑے شاپنگ مالز سنسان پڑے ہیں اور ان میں اس وقت الو بول رہے ہیں۔ جنگ سے پہلے اکثر مالز مغربی کمپنیوں کی مصنوعات سے لدے ہوئےتھے۔
نوے کی دہائی میں روس میں مکڈانلڈز کا کھلنا ایک ثقافتی لمحہ قرار پایا تھا۔ آج روس کی جانب سے شروع کی گئی جنگ کی وجہ سے کمپنی نے ملک میں آپریشن بند کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ آئیکیا جیسی کمپنی نے بھی ملک میں کام بند کر دیا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں ایسی ملازمتیں جو پہلے مستقل تصور کی جاتی تھیں، چند مہینوں میں ہی ان کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
بڑے صنعتی اداروں نے، جن میں برٹش پیٹرولیم، شیل اور گاڑیاں بنانے والی کمپنی رینالڈ بھی شامل ہیں، روس میں بھاری سرمایہ کاری کے باوجود ملک سے منہ موڑ لیا ہے۔ شیل کا کہنا ہے کہ روسی اثاثے ختم کرنے کے عمل میں کمپنی کو 5 ارب ڈالر کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔
SEE ALSO: بیس ممالک یوکرین کو نئی سیکیورٹی امداد بھیج رہے ہیں، پینٹاگانخبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق جہاں ملک سے ملٹی نیشنل کمپنیاں نکل رہی ہیں، ایسے روسی جن کے پاس ملک سے نکلنے کے وسائل دستیاب تھے، وہ بھی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ملک میں نوجوانوں کو یہ بھی خدشہ لاحق ہے کہ جنگ کے بعد ملک مکمل آمریت کی جانب بڑھ رہا ہے جب کہ کچھ نوجوان اس لیے ملک سے فرار ہوگئے کہ انہیں اندیشہ تھا کہ انہیں لازمی فوجی بھرتی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اے پی کے مطابق ملک سے فرار ہونا بھی مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ یورپی یونین کے 27 ممبر ممالک سمیت امریکہ اور کینیڈا نے روس سے فضائی سفر بند کر دیا ہے۔ ایسٹونیا کا دارالحکومت ٹالین، جہاں روسی شہری 90 منٹ کے ہوائی سفر سے پہنچ سکتے تھے، آج وہاں جانے کے لیے ماسکو سے پہلے استنبول، اور وہاں سے فلائٹ لینی پڑتی ہے اور اس عمل میں 12 گھنٹے تک لگ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ملک میں جاری سنسرشپ بھی میڈیا اداروں کو بند ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔ روس نے مارچ میں فیس بک اور انسٹاگرام پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے علاوہ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی، وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ، ریڈیو لبرٹی اور جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے پر بھی حکومت کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
بین الاقوامی اداروں کے ساتھ ساتھ مقامی نشریاتی ادارے بھی ملک میں کام بند کر رہے ہیں۔ ان میں ایکو موشکیو ریڈیو سٹیشن، اور حال ہی میں نوبیل پیس پرائز جیتنے والے روسی مدیر دمتری مراتوو کا اخبار نووایا گزیٹا بھی بند ہو گئے ہیں۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں روسی روبل کی قیمت تیزی سے گر رہی تھی لیکن حکومتی کوششوں کی بدولت اس میں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے اور اس وقت روبل کی قیمت جنگ سے قبل سے بھی زائد ہے۔
مارکو ایڈوائزری کے لیے روسی معیشت کے سابق تجزیہ کار کرس ویفئیر نے اے پی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جہاں تک معاشی عمل کی بات ہے، وہ بالکل ایک مختلف کہانی ہے۔
بقول ان کے ’’ہم روس کے معاشی سیکٹرز میں تنزلی دیکھ رہے ہیں۔ کمپنیاں اس اندیشے کا اظہار کر رہی ہیں کہ رسد ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو جز وقتی ملازمتوں پر رکھ لیا ہے جب کہ کچھ نے اپنے ملازمین کو مطلع کر دیا ہے کہ انہیں کام مکمل طور پر بند کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس بات کا شدید اندیشہ ہے کہ گرمیوں کے مہینوں میں بے روزگاری میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا اور یہ بھی کہ کھپت، ریٹیل سیلز اور سرمایہ کاری میں کمی دیکھنے میں آئے گی۔‘‘
SEE ALSO: فن لینڈ اور سوئیڈن نے نیٹو میں شمولیت کی باضابطہ درخواست جمع کرادیان کا کہنا تھا کہ روبل کی قیمت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے روسی برآمدات عالمی منڈی میں مہنگی ہو گئی ہیں۔
اگر جنگ طویل عرصے تک جاری رہی تو مزید کمپنیاں روس چھوڑ جائیں گی۔ ویفئیر کے مطابق وہ کمپنیاں جنہوں نے ابھی صرف کام بند کیا ہے وہ کسی سیز فائیر یا امن معاہدے کی صورت میں کام دوبارہ شروع کر سکتی ہیں۔ لیکن، بقول ان کے، ’’ہم (روسی) ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں کمپنیوں کے پاس وقت ختم ہو جائے، یا شاید ان کا صبر جواب دے جائے۔‘‘
(اس خبر کے لیے مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)