جنوبی ایشیا میں کم عمر لڑکیوں کی شادیوں کی روک تھام کے لیے مزید 55 برس درکار

فائل فوٹو

اقوامِ متحدہ کے فنڈ برائے اطفال (یونیسف ) نے کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بچوں کی شادیوں میں تسلسل سے کمی آ رہی ہے اور گزشتہ ایک دہائی میں کم عمر لڑکیوں کی شادیاں لگ بھگ نصف ہو گئی ہیں۔

یونیسف جنوبی ایشیا کی رپورٹ کے مطابق خطے میں 10 برس کے دوران کم عمر لڑکیوں کی شادیاں 46 فی صد سے کم ہو کر 26 فی صد پر آ گئی ہیں جس میں ایک بڑا حصہ اس بارے بھارت میں چلائی گئی مہم کا ہے جب کہ بنگلہ دیش، نیپال اور پاکستان میں بھی کم عمر لڑکیوں کی شادیوں میں قابلِ ذکر کمی آئی ہے۔

یونیسف کا ا اندازہےکہ اگر کم عمر لڑکیوں کی شادی کے تدارک کے لیے اقدامات اسی رفتار سے جاری رہے تو اس کو ختم کرنے میں لگ بھگ 55 برس لگ جائیں گے۔

اقوامِ متحدہ کےبچوں کے فنڈ کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی کم عمر کی شادیوں میں سے لگ بھگ 45 فی صد شادیاں جنوبی ایشیا میں ہو رہی ہیں جب کہ دنیا بھر میں ہونے والی کم عمر کی شادیوں میں ایک تہائی اب بھی بھارت میں ہو رہی ہیں۔تاہم حالیہ دہائیوں میں بھارت نے اس حوالے سے کافی پیش رفت دکھائی ہے ۔

یونیسف کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 64 کروڑ خواتین اور لڑکیاں ایسی ہیں جن کی شادی کم عمر میں ہوئی ہے۔ ان میں سے 29 کروڑ خواتین اور لڑکیوں کا تعلق جنوبی ایشیا ہے۔

اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میں لڑکیوں کی کم عمر میں شادیوں کے تدارک میں کافی پیش رفت ہوئی لیکن حالیہ برسوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات، معاشی مشکلات اور کرونا کی عالمی وبا کے سبب پیدا ہونے والی صورتِ حال سے جنوبی ایشیا میں اس پیش رفت پر منفی اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ ہے۔

یونیسف کے مطابق کروناکی وبا نے، صحت کی سہولیات، تعلیم اور دیگر سماجی خدمات تک رسائی کے حصول کو لڑکیوں کے لیے مشکل بنادیا ہے۔

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرائین رسل کہتی ہیں صحت کے مسائل، معاشی مشکلات، مسلح تنازعات،اورموسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے سبب خاندانوں میں یہ غلط سوچ پیدا ہوتی ہے کہ مسائل کا حل لڑکیوں کی کم عمر کی شادی میں ہے۔

ان کے بقول،" ہمیں وہ تمام اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے لڑکیوں کیلئے تعلیم کے حصول اور ایک خود مختار زندگی گزارنے کا حق محفوظ رہے۔"

اقوامِ متحدہ کی جنوبی ایشیا سے متعلق رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس خطے میں کم عمر کی لڑکیوں کی شادیاں عام طور پر دیہی علاقوں میں غریب خاندانوں میں ہوتی ہیں اور ان کی تعلیم پر بھی توجہ نہیں دی جاتی۔

رپورٹ میں پاکستان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں جن لڑکیوں کی کم عمر ی میں شادیاں کر دی جاتی ہیں ان میں 25 فی صد لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو کبھی اسکول نہیں جا پاتیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کم عمر کی ہر چار میں سے ایک شادی شدہ لڑکی نے کبھی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔

کم عمر ی میں لڑکیوں کی شادیوں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان لڑکیوں کو ایسی شادیوں کےفوری اور بعد ازاں عمر بھر کے اثرات اور نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان لڑکیوں کے قبل از وقت حاملہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے جس سے زچگی کے مسائل جنم لیتے ہیں جب کہ اس دوران اموات بھی ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح یہ لڑکیاں سماجی مسائل سے بھی دوچار ہوتی ہیں جس سے نفسیاتی مسائل جنم لیتے ہیں۔

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرائین رسل کے بقول، " ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ بچپن کی شادیوں کا خاتمہ ممکن ہے لیکن اس کے لیے ایسی لڑکیوں اور خاندانوں کی مدد کرنےکی ضرورت ہے جو ان مسائل سے دوچار ہو رہے ہیں۔"

رسل نے مزید کہا کہ اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ لڑکیاں تعلیم حاصل کر سکیں اور ان کے لیے معاشی طور پر خود مختار ہونے کے مواقع موجود ہوں۔