رسائی کے لنکس

افغان خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کی تعلیم پر منظم حملوں پر خاموش نہیں رہ سکتے: سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ


اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے ان کا ادارہ افغانستان میں جاری خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر حملوں پر کبھی بھی خاموش نہیں رہے گا۔ ان کے مطابق افغان خواتین پر انسانی ہمدردی کے کام کرنے پر پابندی سے لاکھوں جانوں کو خطرے میں ڈالا جا رہا ہے۔

منگل کے روز قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان کے بارے میں خصوصٰی نمائندوں کے ایک بین الاقوامی اجلاس کے انعقاد کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ 'افغانستان میں انتہائی کمزور اور غیر محفوظ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے طالبان کے ساتھ رابطے کی حکمت عملی کی ضرورت پر اتفاق کیا ہے۔

اس دو روزہ کانفرنس میں اگرچہ طالبان کو دعوت نہیں دی گئی تھی تاہم ہفتے کے روز کابل میں خواتین کے ایک گروپ نے احتجاج کرتے ہوئے دوحہ کانفرنس کے شرکا سے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

انتونیو گوتریس نے واضح کیا کہ یہ اجتماع طالبان کو تسلیم کرنے سے متعلق نہیں بلکہ اس کا مقصد دہشت گردی، انسانی حقوق پر حملوں اور منشیات کی سمگلنگ کے پھیلاؤ جیسے باہمی مربوط اور شدید مسائل پر ایک مشترکہ بین الاقوامی سوچ پیدا کرنا ہے۔

سیکرٹری جنرل نے بتایا کہ، 'ہم تعلق توڑ کر اپنے مسائل حل نہیں کر سکتے ہیں۔'

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی سنگینی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ آج دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران ہے۔ 97 فیصد افغان عوام غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دو کروڑ 80 لاکھ آبادی میں سے دو تہائی کو اس برس زندہ رہنے کے لیے انسانی امداد کی ضرورت ہو گی۔ جبکہ 60 لاکھ بچے، مرد اور خواتین قحط جیسے حالات سے محض ایک قدم دور ہیں اور اس دوران فنڈنگ ختم ہو رہی ہے۔

سیکرٹری جنرل کے بقول افغانستان میں اقوام متحدہ، عالمی اور مقامی اداروں میں خواتین کو کام سے روکنا، ناقابل قبول اور ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

ان کا کہنا تھا 'میں آج واضح کرتا ہوں کہ ہم خواتین کے حقوق، اور لڑکیوں کی تعلیم پر منظم حملوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔'

کابل میں افغان خواتین کا اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ۔ 29 اپریل 2023
کابل میں افغان خواتین کا اپنے حقوق کے لیے مظاہرہ۔ 29 اپریل 2023

اگست 2021 میں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد طالبان نے خواتین مخالف مختلف پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ جس میں تعلیم، روزگار، سفر، عوامی مقامات پر برقع کا لازمی استعمال اور حتیٰ کہ پارکوں میں بھی خواتین پر مردوں کے بغیر آنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ گزشتہ ماہ مقامی خواتین پر اقوام متحدہ کے ساتھ کام کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

کانفرنس کے اختتام پر سیکرٹری جنرل سے پوچھا گیا کہ کیا وہ طالبان رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کر سکتے ہیں؟ تو اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ، جب موزوں وقت آیا۔ تو میں ظاہر ہے(طالبان حکام) کے ساتھ ملاقات سے انکار نہیں کروں گا۔ آج (ملاقات) کا مناسب وقت نہیں ہے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے نذرالاسلام کے مطابق سیکرٹری جنرل نے ان خیالات کا اظہار منگل کو دوحہ میں افغانستان کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے منعقدہ دو روز ہ کانفرنس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

خیال رہے کہ دنیا کے مختلف ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے خصوصی نمائندوں پرمشتمل دو روزہ کانفرنس قطر کے دارالحکومت دوحہ میں پیر سے شروع ہوئی تھی، تاہم اس کانفرنس میں طالبان کے نمائندوں کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔

اقوامِ متحدہ کے زیر اہتمام اس کانفرنس کامقصد افغانستان کو درپیش چیلنجزکاحل تلاش کرنا ہے۔ کانفرنس کے شرکا طالبان حکومت کی جانب سے خواتین پرعائد مختلف پابندیوں اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بھی بات چیت کر رہے ہیں۔

کانفرنس میں پاکستان، امریکہ، روس، برطانیہ، چین، ایران، انڈونیشیا اور بھارت سمیت خطے کے دیگر ملکوں کے وفود بھی شریک ہیں۔

'دوحہ کانفرنس میں طالبان وفد کو نہ بلانا خرابی ہے'

دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے وائس آف امریکہ افغان سروس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوحہ کانفرنس میں طالبان کو مدعو نہ کرنا 'خرابی' ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کے نمائندوں کو مدعو کیے بغیر اس اجلاس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہو سکے گا۔ سہیل شاہین کے بقول اُن کی دوحہ میں چین اور برطانیہ کے سفارت کاروں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ ان ملاقاتوں میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال اور تعمیر نو کے منصوبوں پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG