سین ڈیاگو چڑیا گھر میں کئی عشروں بعد پہلے آرڈوارک کی پیدائش

آرڈورک

امریکی شہر سین ڈیاگو کے چڑیا گھر میں پانچ ہفتے قبل ایک کم یاب جانور آرڈوارک کے بچے کی پیدائش ہوئی تھی لیکن اسے ابھی لوگوں کے سامنے نہیں لایا گیا۔ چڑیا گھر کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اسے چڑیا گھر کے معمولات کا حصہ بننے سے پہلے تقریباً دو ماہ تک اپنی ماں کے ساتھ تنہائی میں رہنے اور سیکھنے کا موقع دیا جائے گا۔

آرڈوارک ایک ریگستانی جانور ہے اور افریقہ کے صحارا صحرا میں پایا جاتا ہے۔ افریقی اسے’ زمینی سور ‘ کہتے ہیں کیونکہ اس کی تھوتھنی سور جیسی ہوتی ہے۔ تاہم یہ اس سے بہت مختلف جانور ہے۔

آرڈوارک ایک ممالیہ یعنی اپنے بچوں کو دودھ پلانے والا جانور ہے۔ اس کی لمبائی منہ سے دم تک سوا سات فٹ تک ہوتی ہے جب کہ وزن 65 کلوگرام یعنی 145 کے لگ بھگ دیکھا گیا ہے۔ اس کی دم موٹی اور تقریبا 28 انچ لمبی ہوتی ہے۔ یہ عموماً گڑھوں میں رہتا ہے اور اپنے رہنے کے لیے یا تو پرانے گڑھوں کا استعمال کرتا ہے یا پھر نئے گڑھے کھودتا ہے۔

آرڈوارک کی خوراک چیونٹیاں اور دیمک وغیرہ ہیں ۔ وہ خوراک کی تلاش میں زیادہ تر رات کو نکلتا ہے۔ اسے جب کہیں چیونٹیوں یا دیمک کی کسی زیر زمین آبادی کا گمان ہوتا ہے تو وہ اپنی سخت تھوتھنی سے اسے توڑتا ہے اور پھر ان کے بل میں اپنی لمبی زبان ڈال دیتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس کی زبان 12 انچ تک لمبی ہوتی ہے جس پر لیس دار مادہ لگا ہوتا ہے۔ چیونٹیاں وغیرہ اس پر چپک جاتی ہیں جنہیں وہ آسانی سے کھا لیتا ہے۔

سین ڈیاگو کے چڑیا گھر میں لگ بھگ 40 سال کے بعد کسی آرڈوارک کی پیدائش ہوئی ہے۔ 10 مئی کو پیدا ہونے والی مادہ آرڈوارک کا ابھی تک کوئی نام نہیں رکھا گیا، لیکن اس کی ماں کا نام زولا ہے۔

چڑیا گھر میں جنگلی جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والی ٹیم کی سربراہ کیری انسرنا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مادہ آرڈوارک بہت ایکٹو ہے اور خوب اچھل کود کرتی ہے۔ اس نے اپنی پیدائش کے محض چند گھنٹوں کے بعد ہی کسی بالغ آرڈوارک کی طرح اپنے نوکیلے پنجوں سے زمین کو کھودنا شروع کر دیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ پیدا ہونے کے بعد صرف پانچ ہفتوں میں اس کا وزن تین گنا بڑھ چکا ہے جس سے اس کی صحت مندی کی رفتار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

جنگلی حیات سے دلچسپی رکھنے والے ننھی آرڈوارک کی رونمائی کے منتظر ہیں تاکہ وہ سین ڈیاگو چڑیا گھر میں طویل عرصے کے بعد پیدا ہونے والے اس کمیاب جانور کو قریب سے دیکھ سکیں۔

(اس خبر کے لیے کچھ مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)