برطانوی حکومت نے جمعہ کے روز وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو جاسوسی کے الزامات کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ کے حوالے کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھنے والا حکم ہے لیکن یہ ایک دہائی پر محیط اس قانونی جنگ کا خاتمہ نہیں ہے جو جولین اسانج کی ویب سائٹ پر خفیہ امریکی دستاویزات کی اشاعت سے شروع ہوا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق وکی لیکس نے کہا ہے کہ وہ برطانوی حکومت کے حکم کو چیلنج کریں گے اور قانونی طور پر اپیل داخل کرنے کے لیے اسانج کے وکیل کے پاس 14 دن ہیں۔
جولین اسانج کی اہلیہ سٹیلا اسانج نے کہا ہے کہ ہمارے لیے راستے ختم نہیں ہوئے، ہم اس حکم کے خلاف قانونی جنگ لڑیں گے۔
جولین اسانج نے امریکہ بھجوائے جانے سے بچنے کے لیے برطانوی عدالتوں میں برسوں یہ مقدمہ لڑا ہے۔ امریکہ میں اسانج کو جاسوسی کے 17 اور کمپیوٹر کے غلط استعمال کے ایک الزام کا سامنا ہے۔
امریکی استغاثہ کا کہنا ہے کہ آسٹریلوی شہری نے خفیہ سفارتی کیبلز اور فوجی فائلیں چرانے میں امریکی فوج کی انٹیلی جنس اینالسٹ چیلسی میننگ کی مدد کی۔ یہ دستاویزات بعد میں وکی لیکس نے شائع کیں، جس سے متعدد لوگوں کی زندگی خطرات سے دوچار ہوئی۔
پچاس سالہ اسانج، اپنے حامیوں کے نزدیک رازداری سے پردہ اٹھانے والا ایک صحافی ہے جس نے عراق اور افغانستان کے اندر امریکہ کی فوج کے غلط اقدامات کو بے نقاب کیا۔
ایک برطانوی عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اسانج کو امریکہ میں مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے بھیجا جا سکتا ہے۔ برطانیہ کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے جمعے کو اسانج کی حوالگی کی اجازت دینے والے ایک حکم نامے پر دستخط کیے۔
ہوم آفس نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت کو ان کے امریکہ جانے کی منظوری دینا پڑی کیونکہ برطانیہ کی عدالتوں نے یہ اخذ نہیں کیا کہ مسٹر اسانج کی حوالگی کا عمل جابرانہ، غیر منصفانہ یا حق تلفی ہوگا۔
اسانج کے امریکی وکیل، بیری پولاک نے کہا کہ یہ ایک مایوس کن خبر ہے جس سے ہر اس شخص کو تشویش ہونی چاہیے جس کے نزدیک آئین کی پہلی ترمیم کے تحت شخصی آزادیوں اور شائع کرنے کے حق کی اہمیت ہے۔"
اسانج کے وکلاء نے کہا کہ وہ ایک نیا قانونی چیلنج پیش کریں گے، اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیس کو ختم ہونے میں مہینوں یا اس سے بھی زیادہ سال لگ سکتے ہیں۔
(خبر کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)