پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا کے چیئرمین کے لیے ہونے والے انتخاب میں حزب مخالف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار صادق سنجرانی کامیاب ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے اپنے عہدے کا حلف اُتھا لیا ہے۔
صادق سنجرانی پاکستان کی تاریخ میں بلوچستان سے منتخب ہونے والے پہلے چیئرمین سینیٹ ہیں۔
ان کے مدمقابل مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر راجہ ظفر الحق تھے۔
نتائج کا اعلان کرتے ہوئے پریذائڈنگ افسر سینیٹر یعقوب ناصر نے بتایا کہ کل 103 ووٹ ڈالے گئے جن میں سے صادق سنجرانی نے 57 جب کہ راجہ ظفر الحق نے 46 ووٹ لیے۔
مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعتوں نے راجہ ظفر الحق کو چیئرمین کا امیدوار نامزد کیا تھا جن کا مقابلہ بلوچستان سے منتخب آزاد سینیٹر صادق سنجرانی سے ہوا جنہیں بلوچستان کے آزاد سینیٹروں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریکِ انصاف کی حمایت حاصل تھی۔
صادق سنجرانی کے انتخاب کے بعد ڈپٹی چیئرمین کیلئے ووٹنگ شروع ہوئی۔ اس میں بھی ہذب اختلاف کے اُمیدوار سلیم مانڈوی والا کامیاب رہے۔ اُنہوں نے 54 ووٹ حاصل کئے۔ اُن کے مقابلے میں حکمران پاکستان مسلم لیگ نون کے حمایت یافتہ اُمیدوار عثمان خان کاکڑ کو 44 ووٹ ملے۔
پیر کو سیکریٹری سینیٹ کی زیرِ صدارت ایوان بالا کے اجلاس کی کارروائی کا آغاز ہوا تو سیکرٹری نے قواعد کے مطابق صدارت کی ذمہ داری پریزائیڈنگ افسر سردار یعقوب ناصر کو سونپی۔
سردار یعقوب ناصر نے نو منتخب 52 ارکان سے حلف لیا۔ حلف برداری کے بعد نو منتخب ممبران نے سینیٹ رول آف ممبرز اور حاضری رجسٹر پر دستخط کیے۔
سابق وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار بھی تین مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخاب میں کامیاب ہوئے تھے لیکن بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے وہ پیر کو حلف اٹھانے کے لیے ایوان میں نہیں آئے۔
البتہ مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر اسد اشرف نے نہال ہاشمی کی نا اہلی سے خالی ہونے والی نشست پر سینیٹ کی رکنیت حلف اٹھایا۔
اسحاق ڈار سمیت 52 سینیٹرز چھ سال کے لیے ملک کے ایوانِ بالا کے رکن بنے ہیں جب کہ ڈاکٹر اسد اشرف تین سال کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔
ن لیگ ڈپٹی چیئرمین کے لیے امیدوار کے انتخاب کا اختیار اپنی اتحادی جماعتوں - نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) - کو دیا تھا جنہوں نے 'پی کے میپ' کے سینیٹر عثمان کاکڑ کو ڈپٹی چیئرمین کا امیدوار نامزد کیا تھا۔
ن لیگ کے رہنما مشاہد اللہ خان نے پیر کو صحافیوں کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ جماعتِ اسلامی اور عوامی نیشنل پارٹی بھی ان کے امیدواروں کو ووٹ دیں گی جب کہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی حمایت کے حصول کے لیے ان سے رابطے جاری ہیں۔
مسلم لیگ (ن) یہ دعویٰ کر چکی تھی کہ اسے چیئرمین سینیٹ کے لیے اپنا امیدوار منتخب کرانے کے لیے درکار 53 ارکان سے کہیں زیادہ سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
تاہم ایم کیو ایم کے سینیٹر میاں عتیق نے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت کے پانچ سینیٹرز بھی صادق سنجرانی کو ووٹ دیں گے۔ اس سے قبل ایم کیو ایم کے یہ ووٹ ن لیگ کے تصور کیے جارہے تھے۔
دوسری طرف پاکستان تحریکِ انصاف کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لیے بلوچستان سے منتخب ہونے والے آزاد سینیٹر صادق سنجرانی کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔
ڈپٹی چیئرمین کے لیے پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹر سلیم مانڈوی والا امیدوار تھے جن کی تحریکِ انصاف نے بھی حمایت کی تھی۔