پاکستان کرکٹ اور چیمپئنز ٹرافی 2017 کی فاتح ٹیم کے کپتان سرفراز احمد منگل کی صبح کراچی پہنچ گئے۔ رہائش گاہ پر میڈیا سے مختصر خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ ٹرافی جیتنا ان کا اکیلے کا کارنامہ نہیں، ٹیم اسپرٹ کا نتیجہ ہے۔ ’’تمام کھلاڑیوں نے بیٹنگ، بالنگ اور فیلڈنگ میں شاندار پرفارمنس دی۔ اسی کے نتیجے میں ہم فاتح قرار پائے ہیں۔‘‘
انہوں نے مستقبل میں مزید بہتر پرفارمنس کی امید کرتے ہوئے کہا کہ’’ٹیم نے ’کم بیک‘ کیا ہے۔ یہ پاکستان کرکٹ کے لئے بہتری کا واضح اشارہ ہے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’جس طرح پاکستانی عوام اور کرکٹ فینز نے ٹیم کو سپورٹ کیا ہے، اس کے لئے وہ ہمیشہ مشکور رہیں گے۔‘‘
خطاب کے بعد انہوں نے اپنی رہائش گاہ کی پہلی منزل سے جیتی ہوئی ٹرافی عوام کو دکھائی اور ایک گانا گنگنایا تو گویا لوگوں کے مجمع میں نئی جان پڑ گئی۔ لوگوں نے نعرے لگائے، تالیاں بجائیں، ڈانس کیا اور خوب ہلا گلا کیا۔ لوگوں کی خوشی دیدنی تھی بلکہ اگر یہ کہا جائےکہ چہروں سے پھوٹی پڑ رہی تھی تو غلط نہ ہوگا۔
خوشیاں منانے کا سلسلہ نصف رات سے اسی وقت شروع ہوگیا تھا جب مقامی الیکٹرونک میڈیا نے ان کی دبئی ایئرپورٹ سے روانگی کے منظر نشر کرنا شروع کئے۔ یہی وجہ تھی کہ جس وقت سرفراز کراچی ائیرپورٹ پہنچے تو گورنر سندھ محمد زبیر، میئر وسیم اختر اور دیگر اہم شخصیات ان کے والہانہ استقبال کے لئے موجود تھیں۔
سیکورٹی کے بھی نہایت سخت انتظامات کئے گئے تھے۔ لاؤنج میں اے ایس ایف کے کمانڈوز تعینات کئے گئے تھے جبکہ باہر پولیس کمانڈوز تعینات کئے گئے تھے۔
پولیس کا بینڈ بھی سرفراز اور ان کے ساتھ ہی آنے والے دوسرے کھلاڑی رومان رئیس کے استقبال کے لئے موجود تھا، جبکہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے گھنٹوں سے منتظر رہی۔ انہوں نے ہاتھوں میں پھول، گلدستے، پھولوں کی پتیاں اور ہار تھامے ہوئے تھے۔
مردوں کے ساتھ ساتھ بچوں اور خواتین کی بھی بڑی تعداد ائیرپورٹ پہنچی تھی۔ رش کا یہ عالم تھا کہ کندھے سے کندھا چھل رہا تھا۔ کئی افراد کے پیروں کی انگلیاں رش کے باعث دوسرے افراد کے پیروں تلے آگئیں۔
سرفراز قافلے کی شکل میں جب اپنے گھر ، بفرزون پہنچے تو رش مزید بڑھ گیا یہاں تک کہ انہیں کنٹرول کرنے کے لئے چھڑیوں تک کا استعمال کیا جاتا رہا۔ رش میں سرفراز کی گاڑی بری طرح پھنسی رہی اور ایک بار تو کئی کئی منٹ بعد انچ، انچ بھر کھسکتی رہی۔
سرفراز بفرزون نامی علاقے میں رہتے ہیں اور جب سے ٹرافی جیتی ہے سوشل میڈیا پر بعض لوگوں نےبڑھ چڑھ کر اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ بفرزون کا نام ’سرفراز ٹاؤن‘ رکھ دیا جائے۔ ان کے بقول سرفراز کو خراج تحسین پیش کرنے کا اس سے اچھا طریقہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس طرح ان کا نام تاریخ میں امر ہوجائے گا۔
منگل کی رات سے اور صبح تک جس قدر لوگوں نے ان کے گھر کا رخ کیا اسے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مہم آگے بڑھی تو لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس حق میں ہوجائے گی۔
بفرزون متوسط طبقے کی گنجان آبادی ہے۔ ان کے ایک پڑوسی نے وائس امریکہ کے اس نمائندے کو بتایا کہ ’’سرفراز کی فیملی بھی بہت سادہ مزاج ہے، ملنسار اور انسانیت دوست‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں، انہوں نے مزید کہا کہ ’’کارنامے سرانجام دینے کے باوجود سرفراز کا رہن سہن اور گلی میں چلنے پھرنے اور ہم لڑکوں سے ملنے کا وہی عام سا انداز ہے ذرہ تکبر نہیں۔ یہی وہ خاصیت ہے کہ ان کے استقبال کے لئے اطراف کی تمام گلیاں کچھا کچھ بھری ہوئی ہیں اور لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بیتاب ہیں۔‘‘
سرفراز کے ایک پڑوسی عمران نے بتایا کہ’’بیشتر لوگ تو ایسے ہیں جو رات سے ہی یہاں جمع ہیں۔ درمیان میں، وہ ضرورتا ً اپنے گھر آتے جاتے رہے۔ لیکن زیادہ تر وقت یہیں گزارا۔‘‘