سعودی عرب میں شیعہ عالم سمیت 47 افراد کو سزائے موت

فائل

ایران نے متنبہ کیا تھا کہ اگر نمرکو پھانسی دی گئی تو "سعودی عرب کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔"

سعودی عرب نے ہفتہ کو 47 افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد کرنے کا اعلان کیا جن میں سعودی حکومت کے ایک اہم نقاد شیعہ مذہبی شخصیت بھی شامل ہے۔

سرکاری خبر رساں ایجنسی "سعودی پریس ایجنسی" نے وزارت داخلہ طرف سے فراہم کردہ مجرموں کی فہرست جاری کی جس کے مطابق ان میں 45 سعودی شہری جب کہ ایک کا تعلق چاڈ اور ایک کا مصر سے بتایا گیا ہے۔

ان میں زیادہ تر وہ مجرم شامل تھے جنہیں 2003 سے 2006ء کے دوران القاعدہ کی طرف سے مختلف حملوں کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے اہم مذہبی رہنما نمر النمر ملک کے مشرقی علاقوں اور بحرین میں خاصا اثر رسوخ رکھتے تھے۔

بحرین میں 2011ء میں شیعہ برادری نے بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے کیے تھے جنہیں کچلنے کے لیے سعودی عرب نے بحرین میں اپنی فوجیں بھی بھیجیں تھیں۔

2012ء میں اپنی گرفتاری سے نمر نے کہا تھا کہ لوگ ایسی حکمران نہیں چاہتے جو قتل کریں اور مظاہرین کے خلاف نا انصافی سے پیش آئیں۔ ان سے مقدمے کی سماعت کے دوران پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ خاندان آل سعود کی حکمرانی سے انکاری ہے۔

اس سماعت میں موجود میں نمر کے بھائی محمد نے خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کو بتایا تھا کہ نمر نے اس کے جواب میں کہا کہ "اگر مشرقی علاقوں میں شیعہ برادری کے خلاف ناانصافی ختم کر دی جائے تو ہو سکتا ہے میرا نظریہ (حکومت سے متعلق) مختلف ہو۔‘‘

نمر نے خود پر لگائے گئے دیگر الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے نہ تو تشدد پر اکسایا اور نہ ہی کبھی ہتھیار لے کر چلے۔

ایران نے متنبہ کیا تھا کہ اگر نمرکو پھانسی دی گئی تو "سعودی عرب کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔"

سعودی عرب میں سزائے موت پر عملدرآمد مجرم کا سرقلم کر کے کیا جاتا ہے اور ان سزاؤں پر نظر رکھنے والے انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق گزشتہ سال 157 مجرموں کی ایسی سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا جو کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران سب سے زیادہ تعداد تھی۔

نمر النمر کی سزائے موت پر عملدرآمد سے سعودی مشرقی علاقوں میں بدامنی کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔