سعودی عرب سے تعلق رکھنے والی نسیمہ الصدا گزشتہ ڈھائی سال سے دمام شہر کی ایک جیل میں بند ہیں۔ نسیمہ کو سعودی عرب کے سائبر کرائم کے قانون کی خلاف ورزی پر چھ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ غیر ملکی مبصرین کو اس مقدمہ کی کارروائی سننے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ نسیمہ پر الزام ہے کہ انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے سعودی عرب کے دشمن غیر ملکی عناصر کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا۔
جیل جانے سے قبل نسیمہ گزشتہ کئی برسوں سے سعودی خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی تھیں۔ وہ ایک نیوز ویب سائٹ کے لیے کالم لکھتی رہی ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیم العدالہ کی شریک بانی بھی ہیں۔
وہ سعودی خواتین کے انتخابی عمل میں حصہ لینے، تنہا گاڑی چلانے اور مردوں کی سرپرستی سے نکلنے کے حق کے لیے سرگرم تھیں اور انہوں نے اس کے لیے ایک مقدمہ بھی دائر کر رکھا تھا۔
وائس آف امریکہ کی نامہ نگار جیسیکا بلیٹ کی رپورٹ کے مطابق، نسیمہ ان متعدد سعودی خواتین صحافیوں اور سرگرم کارکنوں میں شامل ہیں، جنہیں 2018 میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس وقت سعودی حکام نے، ایسی خواتین کے خلاف پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا، جو خواتین کے ڈرائیونگ کرنے کے حق کے لیے آواز بلند کر رہی تھیں۔
خواتین کے تنہا گاڑی چلانے پر عائد پابندی کو تو ہٹا دیا گیا، لیکن اس حق کا مطالبہ کرنے والی بہت سی خواتین اب تک جیلوں میں بند ہیں۔
ان میں سے ایک خاتون لوجین الہدلول کو فروری میں رہا کر دیا گیا تھا، جس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ ان کے ساتھ گرفتار ہونے والی دیگر خواتین کو بھی رہا کر دیا جائے گا۔
تاہم لوجین الہدلول کہتی ہیں کہ قید سے رہائی آزادی کی ضمانت نہیں۔
لوجین الہدلول پر سخت پابندیاں عائد ہیں کہ وہ اپنے تجربے کے حوالے سے بات نہیں کر سکتیں۔ ان کے سفر کرنے پر بھی پابندی ہے۔ ان کی سزا معطل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اگر وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں تو وہ دوبارہ جیل جا سکتی ہیں۔ مبصرین کے مطابق اگر نسیمہ الصدا کو رہا کیا جاتا ہے تو ان پر بھی یہی پابندیاں لاگو ہونگی۔
ایک صحافی اور کوالیشن فار وومن اِن جرنلزم کی شریک بانی کرن نازش نے وائس آف امیریکہ کو بتایا کہ رہائی کے بعد بھی انہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں۔
یہ صحافتی تنظیم خواتین صحافیوں کو درپیش خطرات کےحوالے سے آگہی پیدا کرنے کے پروگرام کے ساتھ خواتین صحافیوں کو مدد فراہم کرنے والا ایک ادارہ چلاتی ہے، اور اس نے ریاست کی جانب سے نسیمہ کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی مذمت کرتے ہوئے ان کی رہائی اور دیگر سعودی خواتین کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
نازش کا کہنا ہے کہ انہی خدشہ ہے کہ سعودی حکومت، نسیمہ کو جیل سے نکالنے کے بعد ان پر پابندیاں عائد رکھے گی۔ ان کے سفر کرنے پر پہلے ہی پابندی ہے۔
نازش کہتی ہیں کہ سعودی حکومت اور شہزادہ محمد بن سلمان پر بین الاقوامی دباؤ موجود ہے، لیکن اب تک اس معاملے پر پیش رفت نہیں ہوئی۔
امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات سے متعلق کمیٹی اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے نسیمہ الصدا اور دیگر سعودی خواتین کیے خلاف جیلوں میں روا رکھے جانے والے سلوک پر کڑی تنقید کی ہے۔
امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے ایک خط میں کہا ہے کہ اِن خواتین کو اپنے بنیادی حقوق استعمال کرنے پر ناحق جیل میں بند رکھا گیا ہے۔
ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے بھی سعودی خواتین کی رہائی کے لیے مہم چلائی ہے۔ 2018 کی اپنی رپورٹ میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس گروپ نے گرفتار ہونے والی خواتین کی جانب سے جنسی ہراسانی اور تشدد کی شکایات رپورٹ کی تھیں۔
اس معاملے پر سعودی موقف لینے کے لیے وائس آف امریکہ نے واشنگٹن میں قائم سعودی سفارتخانے سے رابطہ کیا، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ سعودی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر دیے گئے ای میل ایڈریس پر بھیجی گئی وی او اے کی ای میل کے جواب میں Failed یا ناکام ڈیلیوری کا پیغام موصول ہو رہا ہے۔
رپورٹرز ود آوٹ بارڈر جیسی صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سعودی حکام تنقید کرنے والے یا سیاسی معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کے خلاف کارروائی کے لیے انسداد دہشت گردی یا سائبر کرائمز قوانین کا استعمال کرتے ہیں۔ صحافیوں پر ’’ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے یا ملک کے امیج کو نقصان پہنچانے‘‘ کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔
کرن نازش کہتی ہیں کہ سعودی عرب چاہے "مذہبی تناظر میں خواتین کا احترام کرے یا کرنا چاہے، لیکن ایسی خواتین کا احترام نہیں کرتا، جو اپنی آواز اٹھاتی ہیں، اور احترام اور اختیار کا مطالبہ کرنا چاہتی ہیں"۔
کرن نازش کے بقول، "سعودی صحافی نسیمہ الصدا کی حراست میڈیا کی آزادیوں کے لئے نقصان دہ ہے، کیونکہ خاتون صحافی کو ٹارگٹ کیا جانا صحافت کو براہ راست ہدف بنانے جیسا ہے، اور اس سے صحافت اور جمہوریت دونوں کو خطرہ رہے گا‘‘۔
واضح رہے کہ دنیا میں صحافتی آزادیوں کا اندازہ لگانے والے انڈیکس میں سعودی عرب دنیا کے 180 ملکوں میں 170 ویں نمبر پر ہے۔ ان ملکوں کی فہرست میں اولین درجے پر وہ ملک ہے، جہاں صحافت مکمل آزاد ہے۔