سعودی عرب میں اس وقت ایک نیا دور شروع ہوا جب عورتوں کو انتخابات میں حصہ لینے، سیاسی عہدے سنبھالنے اور ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔
2015 کے اواخر میں ایک ہزار منتخب کونسل ارکان میں سے پہلی مرتبہ 20 منتخب ارکان عورتیں تھیں۔
مگر جب جدہ میں دو منتخب خواتین نے اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ اسی کمرے اور اسی میز پر بیٹھنے کی کوشش کی تو انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ مردوں کا کہنا تھا کہ عورتوں اور مردوں کا اجلاس میں اکٹھے بیٹھنا اسلامی قانون کے منافی ہے۔ تاہم سعودی عرب کے روشن خیال حلقے اس مؤقف سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔
اس واقعے سے لگ بھگ دو ہفتے بعد نو منتخب رکن اور جدہ چیمبرز آف کامرس کی سابق وائس چیئرپرسن لمى السليمان سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر اس معاملے پر بات کرتی نظر آئیں مگر وہ محتاط تھیں۔
’’ایسے لوگ موجود ہیں جو زیادہ قدامت پسند ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مرد اور عورتوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ رہنا چاہیئے۔ دوسری طرف معتدل قدامت پسند ہیں جن کا خیال ہے کہ عورتوں کو مردوں سے ملنا چاہیئے، خصوصاً قائدانہ عہدوں یا فیصلہ سازی سے متعلق عہدوں پر ہوتے ہوئے۔‘‘
تاہم اس بحث کے دونوں طرف سرگرم کارکنوں نے پرزور طریقے سے اپنے اپنے مؤقف کی حمایت کی۔ روزنامہ ’سعودی گزٹ‘ میں کالم نگار سمر فتانی نے لکھا کہ ’’عورتوں کے ساتھ ایسا انتہا پسندانہ سلوک بہت ہو گیا۔‘‘
دریں اثنا ٹوئیٹر پر صارفین نے معاشرے میں اخلاقی اقدار کی تنزلی کی شکایت کی۔
صالح نامی ٹوئیٹر صارف نے لکھا کہ ’’عورتیں اس لیے اداس ہیں کہ وہ مردوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتیں؟ ہمارے ملک میں ایسی ذہنیت کیسے پروان چڑھ رہی ہے؟‘‘
لمى السليمان کا کہنا تھا کہ نشستوں پر بحث سعودی عرب میں عورتوں کو بااختیار بنانے کی وسیع تر بحث کا حصہ ہے۔
سعودی عرب میں عورتوں کو کافی پابندیوں کا سامنا ہے جس میں سفر، تعلیم اور مخصوص قسم کی ملازمتوں کے لیے مرد سرپرست سے اجازت کی شرط شامل ہیں۔
عمومی طور پر غیر متعلق مردوں اور عورتوں کا آپس میں ملنا سختی سے منع ہے۔ اس ہفتے کے اوائل میں جدہ میں مردوں اور عورتوں سمیت 11 افراد کو مبینہ طور پر ساحل سمندر پر ایک پارٹی میں شریک ہونے پر حراست میں لے لیا گیا تھا جہاں شراب پیش کی جا رہی تھی۔ سعودی عرب میں شراب پر بھی پابندی ہے۔
سعودی عرب میں عورتوں کی ڈرائیونگ پر پابندی ہے اور انہیں اپنے کپڑوں پر کھلے عبایا پہننا لازمی ہے۔
مگر لمی السلیمان کے مطابق یہ پابندیاں بڑے مسائل کے مقابلے میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں، مثلاً افرادی قوت میں عورتوں کی قلیل تعداد اور مردوں کا اپنی زیر کفالت عورتوں کے مالی وسائل پر کنٹرول۔
’’یہ چیلنج ایک حقیقت ہیں۔ انہیں بدلنے کا ارادہ موجود ہے۔ ہم کچھ معاملات میں جیت رہے ہیں، کچھ میں ہار رہے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ہم آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘
سعودی عرب میں مردوں اور عورتوں کے لیے علیحدہ ریستوران، دکانیں اور عمارتوں میں داخل ہونے کے مختلف دروازے ہیں۔ سکولوں اور دفاتر میں عورتوں اور مردوں کے لیے علیحدہ جگہیں مخصوص ہیں۔
مگر اس سال کے شروع میں جب میونسپل کونسلوں کام شروع کیا تو صرف جدہ کی انتظامیہ کو عورتوں کے مردوں کے ساتھ بیٹھنے پر اعتراض تھا۔
کچھ جگہوں پر عورتیں ایک ہی کمرے میں مردوں کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوتی ہیں جبکہ دیگر جگہوں پر عورتیں الیکٹرانک ذرائع سے کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کو ترجیح دیتی ہیں۔
جدہ میں قائم گلف ریسرچ سینٹر کے چیئرمین عبدالعزیز ساغر کے مطابق جدہ میں عورتوں کی نشستوں پر تنازع بہت سے لوگوں کے لیے حیران کن تھا کیونکہ ملک کے سب سے بڑے مذہبی ادارے مجلس شوریٰ السعودی کی 30 رکن خواتین اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ طویل عرصہ سے اسی کمرے میں بیٹھ کر بات چیت کرتی رہی ہیں۔
دیگر مبصرین نے کہا کہ چونکہ سعودی حکومت نے شوریٰ میں عورتوں اور مردوں کے اکٹھا بیٹھنے کو جائز قرار دیا ہے تو جدہ میں شکایت کرنا ’’بادشاہ کے فیصلے پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
سعودی عرب میں بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ منتخت مردوں اور عورتوں کو اکٹھے بیٹھ کر صلاح مشورہ کرنا چاہیئے مگر موجودہ نظام کو ختم کرنا زیر غور نہیں۔ مثلاً دفاتر میں مردوں اور عورتوں کے اکٹھے کام کرنے سے کئی عورتوں اور ان کے اہل خانہ کے لیے معاندانہ ماحول پیدا ہو گا اور ان کی حوصلہ شکنی ہو گی۔
لمی السلیمان نے بتایا کہ ایک حالیہ سروے کے مطابق سعودی عرب کی نصف سے زیادہ آبادی علیحدہ جگہوں پر کام کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ ان کے بقول مزید عورتوں کو کام کے لیے آمادہ کرنے کے لیے عورتوں کے لیے مخصوص مزید جگہوں کا قیام ضروری ہے۔
’’میں ایک عورت کو لا کر مردوں میں نہیں بٹھا سکتی جو اپنی زندگی میں کبھی مردوں میں نہیں اٹھی بیٹھی۔ یہ اس کے لیے بہت مشکل ہو گا۔‘‘
سعودی حکومت کے مشیر جان سفاکیاناکس کے مطابق سعودی عورتیں ملک کی افرادی قوت کے 16 فیصد پر مشتمل ہیں۔ ان کے بقول یہ تعداد کم ہے مگر 2003 کے مقابلے میں یہ ایک بڑی چھلانگ ہے، جب یہ تعداد صرف نو فیصد تھی۔
’’یہ ایک غیر معمولی اضافہ ہے اگر آپ یہ دیکھیں کہ ہم ایک بہت مختلف ثقافت کی بات کر رہے ہیں۔ اور بہت کم عرصہ میں یہ تعداد دگنی ہو گئی ہے۔‘‘