سعودی عرب کے بلاگر اور ایکٹوسٹ رائف بدوی کو ایک دہائی جیل میں رکھنے کے بعد جمعہ کو رہا کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ کے مطابق رائف بدوی کی کینیڈا کے صوبے کیوبیک سے تعلق رکھنے والی اہلیہ انصاف حیدر نے تصدیق کی ہے کہ ان کے شوہر کو رہا کردیا گیا ہے۔
رائف بدوی کو سعودی عرب کی قدامت پسند مذہبی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرنے پر ایک دہائی سے قید میں رکھا گیا تھا۔انہیں اپنی تحریر میں سعودی عرب کے علما پر تنقید کرنے پر 2012 میں جیل میں ڈالا گیا جس کے بعد انہیں 2014 میں دس سال قید، ایک ہزار کوڑے اور دس لاکھ سعودی ریال (تین لاکھ چالیس ہزار ڈالر) کی سزا سنائی گئی۔
البتہ کوڑوں کی سزا کافی حد تک معطل کردی گئی تھی۔ لیکن سال 2015 میں جدہ میں ہزاروں لوگوں کے سامنے انہیں 50 کوڑے مارے گئے تھے۔ اس موقع پر بدوی کے ہاتھ اور پاؤں بیڑیوں سے بندھے ہوئے تھے لیکن ان کا چہرہ واضح تھا۔
بدوی کی سزا پر عالمی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا اور سخت ردِ عمل آیا تھا ۔دنیا بھر سے بشمول کئی سعودی اتحادیوں نے اس کی مذمت بھی کی تھی۔
ان کی رہائی سے متعلق اہلیہ انصاف حیدر نے ٹوئٹ کیا کہ 2015 کا یورپ کا انسانی حقوق ایوارڈ جیتنے والا'آزاد ہے'۔ علاوہ ازیں اہل خانہ کے ترجمان نے کہا کہ ان کے پاس مزید کچھ بتانے کو نہیں ہے۔
خیال رہے کہ بدوی کی سزا 28 فروری کو ختم ہو گئی تھی۔ ان کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کرنے والے انسانی حقوق کے وکیل ارون کوٹلر نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ مارچ میں کسی وقت رائف کی رہائی ممکن ہے۔
انہوں نے خبردار کیا تھا کہ بدوی کو 10 سال کی سفری پابندی، میڈیا پابندی اور سزا کے وقت عائد کیے گئے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بدوی کے لیے ساخروف ایوارڈ
یورپی یونین کی جانب سے سال 2015 میں انسانی حقوق کے لیے بدوی کو معتبر ساخروف ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ امریکی محکمۂ خارجہ اور اقوامِ متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے رائف کی سزا منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
دوسری جانب سعودی عرب نے سال 2015 میں سوئیڈن سے اپنے سفیر کو واپس بلاتے ہوئے سوئیڈن کے لوگوں کے لیے کام کے ویزا جاری کرنا روک دیے تھے۔
سعودی عرب کی جانب سے یہ اقدام سوئیڈن کے وزیر خارجہ کے اس بیان کے بعد سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے بدوی کے فیصلے کو ''قرون وسطی'' قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب کا حکمران آلِ سعود خاندان کی''آمریت'' والی طرز حکمرانی کر رہا ہے۔
گزشتہ برس کینیڈا کے ہاؤس آف کامنز اور سینیٹ نے امیگریشن کے وزیر پر زور دیا تھا کہ وہ بدوی کو کینیڈا کی شہریت دیں۔ لیکن یہ اب تک نہیں ہو سکا ہے۔ البتہ ان کی اہلیہ کے پاس کینیڈا کی شہریت ہے۔
ادھر انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ 2018 میں خواتین ایکٹیوسٹ کے خلاف ایک کریک ڈاؤن میں بدوی کی بہن ثمر کو بھی قید کردیا گیا تھا۔ ان کے بقول یہ کریک ڈاؤن آزادیوں کی پرامن حمایت کرنے والوں کے خلاف تھا۔ بعد ازاں گزشتہ برس ثمر کو رہا کردیا گیا۔
اس معاملے پر کینیڈا کی جانب سے تنقید کی گئی تھی جس پر سعودی عرب نے کینیڈا کے سفیر کو ملک بدر کرتے ہوئے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔ اس کے علاوہ اپنی قومی ایئرلائن کی پروازوں کو بھی روک دیا تھا اور کینیڈا میں موجود سعودی طلبہ کو واپس وطن آنے کا حکم دیا گیا تھا۔
ثمر بدوی اور دیگر کی جانب سے سعودی عرب کے مرد وں کی سرپرستی کے قوانین پر تنقید کی گئی تھی، جس میں شوہروں، والد اور بعض حالات میں لڑکوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے خاندان کے لیے پاسپورٹ حاصل کر سکتے تھے۔۔ اس کے علاوہ انہوں نے خواتین کے لیے ڈرائیونگ کے حق کی حمایت کی تھی۔ بعد ازاں یہ دونوں پابندیاں ختم کردی گئیں۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔