|
سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد سعودی وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں پاکستان کا دو روزہ دورہ مکمل کرکے واپس روانہ ہو گیا ہے۔ اس دورے میں اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کے باوجود کوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔
سعودی وفد کا دورہ شہباز شریف کے دوسری بار وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد گزشتہ ہفتے اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر مکہ میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کے بعد ہوا ہے۔ اس دورے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان معاشی تعاون کے فروغ کے امکانات پر کام کرنا تھا۔
سعودی وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان نے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ پاکستان نے سرمایہ کاری سے متعلق متاثر کن اقدامات کیے ہیں جن سے دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم مشترکہ طور پر ان موقعوں سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے اور آئندہ چند ماہ میں ان تمام اقدامات کو عملی جامہ پہنائیں گے۔
عام انتخابات سے قبل قائم نگراں حکومت میں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے گزشتہ سال ستمبر میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ پاکستان سعودی عرب سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری چاہتا ہے جس پر اتفاق ہوگیا ہے۔
گزشتہ سال معاشی مشکلات کی شکار حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کے لیے ایک کونسل تشکیل دی تھی جس میں متعلقہ حکومتی اداروں کے علاوہ فوج کے سربراہ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
بعض مبصرین کے مطابق ماضی میں سعودی عرب مختلف مواقع پر پاکستان کی مالی معاونت کرتا رہا ہے۔ تاہم سرمایہ کاری کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کی کمی تھی۔
تعلقات کو معاشی شراکت داری میں تبدیل کرنے کی کوشش
مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب تعلقات کو معاشی شراکت داری میں تبدیل کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں جو کہ بدلتے حالات اور اسلام آباد کی معاشی مشکلات میں آسانی کے لیے اہم ہے۔
سعودی عرب میں پاکستان کے سابق سفیر ایڈمرل (ریٹائرڈ) ہشام بن صدیق کا کہنا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تاریخی، برادرانہ اور اسٹریٹیجک تعلقات ہیں۔ تاہم دو طرفہ تعلقات میں دفاع سے بڑھ کر معاشی، سفارتی اور مشترکہ منصوبوں میں تعاون کو بڑھانے کی وسیع گنجائش ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ہشام بن صدیق نے کہا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کے فوراََ بعد سعودی وزیرِ خارجہ کی سربراہی میں اعلیٰ وفد کی اسلام آباد آمد سے سنجیدگی ظاہر ہوتی ہے کہ دونوں ملک اپنے تعلقات کو روایتی سطح سے بڑھا کر ہر شعبے میں وسعت دینا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی موجودہ حکومت یہ کہہ چکی ہے کہ ملک کی معیشت کو درست کرنا اور معاشی مشکلات پر قابو پانا اس کی ترجیحات میں سب سے اہم ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے ایک بار پھر پاکستان سعودی قیادت کی طرف دیکھ رہا ہے تاکہ وہ ملک میں معدنیات اور زراعت سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے میں مدد کرے۔
سعودی عرب کے لیے بلوچستان کے سازگار حالات
معاشی امور کے تجزیہ نگار عابد سلہری کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے وفد کی ہیئت بتاتی ہے کہ دورہ اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس دورے میں وزارتی سطح پر ہونے والی ملاقاتوں کے باوجود معاہدے اس وجہ سے سامنے نہیں ہوئے کیوں کہ یہ دورہ بنیادی طور پر مئی میں ولی عہد محمد بن سلمان کے متوقع دورۂ پاکستان کی تیاری کے سلسلے میں تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں کان کنی، زراعت، توانائی اور گرین ریفائنری میں سرمایہ کے آسان اور وسیع مواقع موجود ہیں۔
عابد سلہری نے کہا کہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ سعودی عرب یہاں پر سرمایہ کاری کرے جو کہ بلوچستان جیسے شدت پسندی سےمتاثرہ علاقوں میں بھی قابل قبول ہوگا۔
ان کے بقول بلوچستان میں اگر کسی ملک کی سرمایہ کاری مقامی سطح پر زیادہ قابلِ قبول ہوگی تو وہ برادر اسلامی ملک کی سرمایہ کاری ہوگی۔ سعودی عرب کے جھنڈے کے ساتھ کام کرنے والی کمپنی کو شدت پسندی گروہوں کے حملوں کا سامنا نہیں ہوگا۔
سعودی عرب کے لیے پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع
واضح رہے کہ فروری 2019 میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے پاکستان کے دورے کے دوران پاکستان میں سعودی عرب کی جانب سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے جن میں سعودی عرب کی جانب سے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ریفائنری لگانے کا معاہدہ بھی طے پایا تھا۔ تاہم سرمایہ کاری کے یہ منصوبے تاحال پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کے سلسلے میں بلوچستان میں ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب ایک ارب ڈالر کا سرمایہ لگانے کا جلد ہی آغاز کرے گا۔
ریکوڈک دنیا میں سونے اور تانبے کے بڑے ذخائر میں سے ایک منصوبہ ہے۔
سابق سفیر ایڈمرل (ریٹائرڈ) ہشام بن صدیق کہتے ہیں کہ ماضی میں پاکستانی حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث سعودی سرمایہ کاری اور آئل ریفائنری جیسے منصوبے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاری کے نتیجے میں دیگر سرمایہ کاروں کا اعتماد پیدا ہوگا اور ملک میں نجی شعبے میں سرمایہ کاری آسکے گی۔ اسی طرح سعودی عرب سیکیورٹی کے معاملات میں اپنی استعداد بڑھانا چاہتا ہے جس میں پاکستان انہیں مدد دے سکتا ہے۔
ادھار تیل کی فراہمی کی صورت میں معاشی مدد
ہشام بن صدیق کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں ماضی کے اتار چڑھاؤ کو دیکھتے ہوئے اسلام آباد کو سعودی عرب کے تحفظات اور خطے میں مفادات کی حساسیت کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔
عابد سلہری نے کہا کہ پاکستان نے خصوصی سرمایہ کاری کونسل (ایس آئی ایف سی) اسی لیے قائم کی گئی تاکہ دوست ممالک سے سرمایہ کاری کو آسان اور اس پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب پاکستان میں سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو قابو میں رکھنے، ادھار تیل کی فراہمی کی صورت میں معاشی مدد بھی جاری رکھے گا۔
سعودی وزیرِ خارجہ فیصل بن فرحان کی سربراہی میں آنے والے سعودی وفد نے اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری، وزیرِ اعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے علاؤہ مختلف اعلیٰ حکام سے الگ ملاقاتیں کیں۔