پروگرام کے مطابق منگل کے روز سعودی عرب کی سرمایہ کاری کانفرنس کا افتتاح ہوا، جس سے تین ہفتے قبل ترکی میں سعودی قونصل خانے کے اندر صحافی اور حکومت کے ناقد، جمال خشوگی کا قتل ہوا۔
خشوگی کی ہلاکت اور سعودی عرب کی جانب سے حقائق کے بارے میں بدلتی روداد سامنے آنے کے معاملے پر کئی نامور کاروباری شخصیات اور سرکاری اہل کار ریاض میں منعقدہ ملکی مستقبل سے متعلق سرمایہ کاری کے اجلاس کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منوچن اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ، کرسٹین لگاردے کے ساتھ ساتھ ایم پی مورگن، چیز جیسے بڑے کارپوریٹ اداروں کے سربراہان اجلاس سے غیر حاضر ہیں۔
بین الاقوامی سردمہری کے نتیجے میں اجلاس کی سرگرمی ماند پڑ چکی ہے، جب کہ اس کے برعکس گذشتہ برس ہونے والے افتتاحی اجلاس کی چمک دھمک قابل دید تھی۔ اس منصوبے کے روح رواں ولی عہد محمد بن سلمان تھے، جس کاوش کا مقصد تیل پیدا کرنے والی بادشاہت کی معیشت کو فروغ دینے کے لیے مزید غیر ملکی سرمایہ کاری کی توجہ مبذول کرانا ہے۔
اجلاس کی افتتاحی نشست کے دوران منگل کو اپنے کلمات میں، معروف سعودی کاروباری خاتون، لبنیٰ اولایان نے اپنے ملک کا دفاع کرتے ہوئے خشوگی کی ہلاکت کو ’’ہماری ثقافت کے اعتبار سے انجانی بات‘‘ قرار دیا۔
’دی واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نویس، خشوگی دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانے میں داخل ہوئے، جہاں سے وہ اپنی شادی کے کاغذات بنوانا چاہتے تھے، لیکن اُنھیں پھر نہیں دیکھا گیا۔ خشوگی کی ہلاکت کے بارے میں شائع ہونے والی رپورٹوں کو، جن میں اذیت ناک سلوک کی کہانی پیش کی گئی، کئی دنوں تک مسترد کرنے کے بعد گذشتہ ہفتے سعودی عرب نے یہ بات مان لی کہ قونصل خانے میں تفتیش کاروں سے ’’ہاتھاپائی‘‘ کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوئے۔ اُن کا سامنا کرنے کے لیے بھیجی گئی 15 رکنی سعودی ٹیم نے، اطلاعات کے مطابق، اُن کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔
اُن کی ہلاکت کے نتیجے میں ولی عہد محمد کی جانب سے مخالفین کے خلاف کی جانے والی سخت کارروائی کی جانب دھیان مبذول ہوا، جو شاہ سلمان کے بیٹے اور جانشین سمجھے جاتے ہیں۔