سعودی عرب میں23 سے 25 اکتوبر کے درمیان ایک سرمایہ کاری کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔ لیکن، استنبول کے سعودی قونصل خانے سے ایک سعودی صحافی جمال خشوگی کے لاپتہ ہونے اور مبینہ طور پر ان کے قتل کے بعد امریکہ سمیت کئی ملکوں اور بڑی بڑی کمپنیوں نے سعودی سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
ہر چند کہ سعودی عرب اس معاملے میں ملوث ہونے سے انکار کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ خشوگی قونصل خانے سے واپس چلے گئے تھے۔ لیکن ترک حکام کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں قونصل خانے کے اندر قتل کر دیا گیا، جس معاملے کی تحقیقات ہو رہی ہے۔
اور، متعدد ملکوں اور کمپنیوں نے اس واقعے کے سبب سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔
تاہم، پاکستان اس کانفرنس میں شریک ہو رہا ہے اور اس کے وزیر اعظم عمران خان سعودی عرب جا رہے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام، ’جہاں رنگ‘ میں دو مالیاتی ماہرین، شکاگو یونیورسٹی کے ظفر بخاری اور فیڈریشن آف پاکستان اکنامک کونسل کے چیف اکنامسٹ ڈاکٹر ایوب مہر نے شرکت کی۔ اُن سے سوال کیا گیا آیا سعودی عرب اس کانفرنس کے اپنے متعینہ ہدف حاصل کرسکے گا، اور پاکستان اس کانفرنس میں شریک ہو کر کیا حاصل کرنے کی توقع رکھتا ہے۔
سعودی عرب کی اس کانفرنس کے مقاصد حاصل ہونے کے امکانات کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے، پروفیسر ظفر بخاری کا کہنا تھا کہ (تفصیل منسلک آڈیو میں سنئیے):
Your browser doesn’t support HTML5