گذشتہ ہفتے سعودی عرب میں پہلی بار سٹی کونسل کی نشستوں کے لیے 21 خواتین نے الیکشن جیتا، جن انتخابات میں خواتین کو نہ صرف ووٹ دینے کی اجازت تھی، بلکہ عہدے کا انتخاب بھی لڑ سکتی تھیں۔
سعودی میونسپل کے حالیہ انتخابات میں خواتین کو ملنے والی اس اجازت کو متعدد مغربی تجزیہ کار شکوک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جبکہ ملک میں اُن کے ساتھی انہیں اہم سنگ میل گردانتے ہیں، جسے خواتین کے حقوق کے حوالے سے سست روی سے، لیکن تواتر کے ساتھ پیش رفت خیال کیا جا رہا ہے۔
شہزای بسمہ بنت سعود، سابق شاہ سعود کی پڑپوتی ہیں، جو جدید سعودیہ کے بانی تھے۔ بقول اُن کے، ’یہ ایک علامتی پیش رفت ہے کہ خواتین کو اسٹیج پر لایا گیا اور اُن سے کہا گیا کہ وہ پبلک ذمہ داری سے عہدہ براہ ہوں۔ اور اپنے طور پر یہ ایک بہت بڑا پیغام ہے‘۔
سعودی سیاسی تجزیہ کار، فہد نذر کے بقول، ’میٕں سمجھتا ہوں کہ جاری اصلاحی عمل میں انتخابات کا معاملہ ایک بہت ہی اہم قدم خیال کیا جا رہا ہے، جس کا آغاز سنہ 1990 کی خلیجی جنگ کے کچھ ہی عرصے بعد ہوا‘۔
یہاں تک کہ سعودی سماجی و سیاسی تجزیہ کار، طارق المعینہ نے ووٹ کو سنگ بنیاد کامیابی قرار دیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ایسے میں جب عمومی طور پر تنقید ہی کی جاتی ہے، میں نہیں سمجھتا کہ یہ قدم ناقدین کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ لیکن، یہ مرحوم شاہ کے احکامات کے تحت اٹھایا جارہا ہے۔
بقول اُن کے، ’میرے خیال میں تبدیلی کی یہ لہر شاہ عبد اللہ کے دور حکومت میں شروع ہوئی، اور مختلف شعبہ جات میں خواتین کو بااختیار بنانے کا کام ایک حقیقت بنتا جا رہا ہے۔ اُن میں سے یہ ایک ہے۔‘
اپنے عہد کے آخری سالوں کے دوران، شاہ عبداللہ نے ایک اسکالرشپ پروگرام تشکیل دیا تھا جس کے تحت مرد و خواتین کو بیرون ملک یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنا ممکن ہوا۔ اُنھوں نے خواتین کو اُن شعبوں میں شمولیت اختیار کرنے کی اجازت دی جنھیٕں مردوں کے شعبے خیال کیا جاتا تھا، مثال کے طور پر قانون، صحافت یا انجنیئرنگ۔ اُنھوں نے شوریٰ کونسل میں 30 خواتین کو تعینات کیا، جو سعودی بادشات کی باضابطہ مشاورت کا ادارہ ہے، اور وزارت تعلیم میں خواتین کے امور کا محکمہ قائم کیا جس کی قیادت کے لیے ایک خاتون کو نامزد کیا گیا۔
سعودی سیاست میں خواتین کی یہ پہلی کامیابی نہیں ہے۔ دس برس قبل، دو خواتین جدہ کے چیمبر آف کامرس کے انتظامی بورڈ پر منتخب ہوئی تھیں؛ جن میں سے ایک لمہ السلیمان نے گذشتہ ہفتے کی ووٹنگ میں جدہ کونسل کی نشست جیتی۔
کئی ایک خواتین کو عہدے کے لیے لڑنے یا ووٹ دینے سے روکا گیا، کیونکہ سعودی عرب میں ولی کے نظام کے تحت لازم ہے کہ ایک خاتون کو مرد ولی کی حمایت حاصل ہو۔۔ جو عام طور پر والد، شوہر، بھائی یا بیٹے کی صورت میں ہوتی ہے، تاکہ اُنھیں پاسپورٹ، سفر، بینک اکاؤنٹ کھولنے، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے یا شادی کی اجازت مل سکے۔
ووٹ دینے کے لیے تقریباً 130000 خواتین رجسٹر تھیں۔ لیکن، اُن میں سے ووٹ دینے کے لیے تقریباً 3600 خواتین آسکیں۔
اندازاً 900 خواتین ایسی تھیں جن کے امیدوار بننے کی راہ میں ضابطے مانع تھے، مرد و زن کو انتخابی مہم کے صدر دفتر میں آزادی سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ خواتین امیدواروں کو اپنی تصاویر چھاپنے کی اجازت نہیں تھی، ناہی وہ ووٹروں سے براہ راست رابطے میں آسکتی تھیں۔
انتخابی ادارے کے ترجمان، جودے القحتانی نے کہا ہے کہ کونسل کی نئی رُکن خواتین کو اپنے عہدے پر کام کرنے کی اجازت ہوگی۔ تاہم، اُنھیں مرد ہم منصبوں سے ملنے یا ایک ہی کانفرنس ٹیبل پر نشست کی اجازت نہیں ہوگی۔
شہزادی بسمہ کے بقول، ’میرے خیال میں وہ ویسے ہی خدمات دیں گے جس طرح کہ کامرس بیورو میں خدمات بجا لاتی ہیں۔ خواتین کے اپنے کمرے ہیں جب کہ مردوں کے کمرے علیحدہ ہیں، اور وہ ایک دوسرے سے ٹی وی یا اسکائیپ کے ذریعے ہی رابطہ کرتے ہیں۔
نذر نے اس حقیقت کی جانب نشاندہی کی جسے متعدد مغربی میڈیا ادارے نظرانداز کرتے ہیں۔
بقول اُن کے، حقیقت یہ ہے کہ 21 خواتین کا نشستیں جیتنا کئی سعودی خواتین و مردوں کی جانب سے سخت محنت کا نتیجہ ہے، جنھوں نے انتخابات میں شرکت کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اس رائے کا اظہار کیا کہ ایہ ادارہ جو سعودی سیاسی لحاظ سے اجنبی نوعیت کا ہے، اُسے وسیع تر پذیرائی ملی ہے۔
المعینہ کے خیال مین ڈرائیونگ پر پابندی مشکل معاملہ ہے جو خواتین کو درپیش ہے۔