سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا سے متعلق عدالتی فیصلے کے خلاف درخواست پر اعتراضات لگا کر واپس کر دی ہے۔
سپریم کورٹ کے دفتر نے عمران خان کے وکیل کی جانب سے دائر درخواست پر اعتراض اٹھایا کہ اپیل کے ساتھ منسلک کردہ دستاویزات نامکمل ہیں۔
سپریم کورٹ کے دفتر نے کہا کہ درخواست گزار تمام متعلقہ دستاویزات کے ہمراہ چھ جنوری تک اپیل دائر کر سکتا ہے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق عمران خان نے اپنے وکیل کے توسط سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی تھی کہ توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے کو معطل کیا جائے۔
اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ توشہ خانہ کیس میں سزا پہلے ہی معطل ہو چکی ہے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی درخواست پر نامکمل فیصلہ دیا۔
SEE ALSO: کیا عمران خان اور نواز شریف الیکشن لڑ سکیں گے؟واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دو روز قبل عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں نااہلی ختم کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ سپریم کورٹ واضح کر چکی ہے کہ سزا معطلی سے فیصلہ معطل نہیں ہوتا جب کہ عمران خان نے سزا معطلی کی درخواست میں فیصلہ معطل کرنے کی استدعا نہیں کی تھی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کی درخواست مسترد ہونے کے بعد یہ تاثر قائم ہو گیا تھا کہ عمران خان کی نااہلی برقرار ہے اور وہ انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکتے۔
عمران خان نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے میں غلطی کا فائدہ الیکشن کمیشن نے اٹھاتے ہوئے نااہلی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔
SEE ALSO: گرفتاری کے 100 دن مکمل؛ کیا عمران خان کی مشکلات مزید بڑھیں گی؟درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے رہنما کو انتخابات سے باہر نہیں رکھا جا سکتا۔ اس لیے سپریم کورٹ توشہ خانہ کیس میں سزا پر مبنی فیصلہ معطل کرے تاکہ انتخابات میں حصہ لیا جا سکے۔
عمران خان اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور توشہ خانہ کیس میں ان کی درخواست ایسے موقع پر تاخیر کا شکار ہے جب انہوں نے گزشتہ روز ہی قومی اسمبلی کے تین حلقوں سے اپنے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے ہیں۔
یاد رہے کہ اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے پانچ اگست کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو الیکشن ایکٹ کے تحت پانچ سال کے لیے نااہل قرار دیتے ہوئے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے جس کے بعد انہیں گرفتار کیا گیا تھا۔