پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کی طرف سے پانامہ لیکس کے بارے میں فیصلے پر بلوچستان کے وکلا اور شہریوں نے ملے جُلے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانچ رُکنی بنچ کی طرف سے اس معاملے کی مزید جانج پڑتال کے لئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جامع تحقیقات کرکے قوم کو مطمئن کرے گی۔
بلوچستان کے وکلا کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے کچھ شخصیات ذاتی اور سیاسی حوالے سے متاثر ہو سکتی ہیں۔
’بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن‘ کے سابق صدر، ہادی شکیل کا کہنا ہے کہ یہ ایک نیم سیاسی نوعیت کا کیس ہے اور اس کے دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔
بقول اُن کے، ’’جس پارٹی کے خلاف کریمینل انوسٹیگیشن ہوگا، اُس کے لئے، قدرتی طور پر جو سیاسی ساکھ ہے وہ متاثر ہوگی۔ اسکا ایک سیاسی رُخ بھی ہے، وہ یہ فیصلے کے دوررس نتائج مرتب ہوں گے، اور یہ کسی کو ذاتی طور پر متاثر کرے گا۔‘‘
بلوچستان کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ’’سُپریم کورٹ کا فیصلہ عوام کا اپنے ملک کے اداروں پر اعتماد میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اب مشترکہ تحقیقات ٹیم کو کام کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ سیاسی رہنماﺅں کو عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اقدامات کرنے چاہیں۔‘‘
وائس آف امریکہ کے ساتھ اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے، اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’کمیشن کی جو بات کی گئی ہے کمیشن موجودہ وزیر اعظم کے خلاف، جو اداروں کے سربراہ ہیں وہ کمیشن کے رکن نامزد کرین گے، تو اُن کے لئے یہ بہت مشکل ہوگا کہ وہ موجودہ وزیر اعظم یا اُن کے خاندان کے افراد کے خلاف تحقیقات کرے یا عوام کے سامنے وہ حقائق لاسکیں۔ میرے خیال میں سُپریم کورٹ نے اپنے دائرہٴ کار سے بڑھ کر کوئی فیصلہ نہیں دیا۔ قانونی نقطہ نظر سے یہ اچھا فیصلہ ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جسے ہمیں ماننا چاہیئے چاہے صحیح ہو یا غلط۔ ہم لوگ مطمئن ہیں کہ جو ہمارے ججز نے فیصلہ دیا ہے کہ کمیشن بنایا جائے، کمیٹی تشکیل دی جائے تو اگر نیب اور دیگر ادارے صحیح طریقے سے تحقیقات کرتے ہیں تو اللہ پاک ہو سکتا ہے کہ اس ملک کےلئے کوئی بہتری کا فیصلہ کرے‘‘۔
اعلیٰ عدالت کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے پر 23 فروری کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو جمعرات کو بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسلام آباد میں سُنایا۔
عدالت نے اپنے اکثریتی فیصلے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (’جے آئی ٹی‘) بنانے کا حکم دیا فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحقیقاتی ٹیم کے لیے نام سات دن میں فائنل کیے جائیں، جس میں وفاقی تحقیقاتی اداروں اور‘، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ‘ کے نمائندوں کو شامل کیا جائے ۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ مشترکہ تحقیقات ٹیم دو ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرنے اور تفتیش میں ہونے والی پیش رفت سے ہر 15 روز کے بعد عدالت میں رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہوگی۔