ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے جس گھر میں بچے پالتو کتے یا بلی سے کھیلتے ہوئے بڑے ہوتے ہیں، اپنی عمر کے بقیہ حصے میں ان میں دماغی مرض شیزو فرینیا میں مبتلا ہونے کا خطرہ نمایاں طور پر کم ہوتا ہے۔
امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں قائم جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے چلڈرن سینٹر میں رابرٹ یالکن کی قیادت میں ہونے والی ایک ریسرچ میں بتایا گیا ہے کہ شديد نوعیت کے ذہنی اور دماغی عوارض کا تعلق انسان کے مدافعتی نظام میں پیدا ہونے والی ان تبدیلیوں سے ہوتا ہے جو ابتدائی عمر میں ماحول کے دباؤ کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔
یالکن کہتے ہیں کہ گھر میں پالے جانے والے کتے اور بلیاں ان پہلی چیزوں میں شامل ہیں جو بچوں کے قریبی مشاہدے میں آتی ہیں اور ان کی ذہنی نشو و نما پر اثر انداز ہوتی ہیں۔
بالٹی مور میں قائم شیفرڈ پریٹ ہیلتھ سسٹم میں یالکن اور ان کی ٹیم نے اپنی ریسرچ میں شیزوفرینیا اور دو قطعی نوعیت کے دماغی امراض میں مبتلا ہونے والے ان لوگوں کا جائزہ لیا جو اپنی عمر کے پہلے 12 برسوں کے دوران پالتو کتے یا بلی سے رابطے میں رہے تھے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے ماضی میں کیے جانے والے سائنسی مطالعے یہ بتاتے ہیں کہ بلی اور کتے کے ساتھ رابطے الرجی جیسے ری ایکشن کے ذریعے انسانی دماغ کے خلیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور کئی صورتوں میں انسانی دماغ کے خلیوں کی کیمیائی ساخت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یالکن اور ان کی ٹیم نے اپنی ریسرچ کے لیے بالٹی مور سے 1371 افراد چنے جن کی عمریں 18 اور 65 سال کے درمیان تھیں۔ ان میں سے 396 شیزوفرینیا کے مریض رہ چکے تھے جب کہ 381 دو قطبی مرض میں مبتلا ہوئے تھے جب کہ اپنے ٹیسٹوں کے اعتبار سے 594 افراد نارمل تھے۔
دوسرے مرحلے میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا پیدائش سے 12 سال کی عمر تک ان کے ہاں پالتو کتا یا بلی تھی۔
تحقیق کی روشنی میں یہ پتا چلا کہ جو افراد کا 13 سال کی عمر سے پہلے پالتو کتے یا بلی سے رابطے میں رہے ان میں شیزو فرینیا اور بائی پولر میں مبتلا ہونے کا خطرہ 24 فی صد کم تھا۔
یالکن نے بتایا کہ ان دو ذہنی امراض سے وہ افراد سب سے زیادہ محفوظ رہے جن کے ہاں پیدائش کے وقت پالتو کتا موجود تھا یا وہ اپنی ابتدائی عمر کے پہلے تین سال میں پالتو کتے سے رابطے میں آئے تھے۔
یالکن کہتے ہیں کہ کم عمر بچے جب پالتو کتے سے رابطے میں آتے ہیں تو اس سے ان کے مدافعتی نظام کو توانائی ملتی ہے، جو اسے جینیاتی طور پر شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا ہونے سے روکتی ہے۔