ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بچوں کیلئے ماحول غیر محفوط ہوتا جارہاہے، بچوں کے ساتھ جنسی جرائم کی وارداتیں رونما ہوجائیں تو ان کی تحقیقات صحیح نہیں ہوتیں نہ ہی مجرم پکڑے جاتے ہیں۔
کراچی —
پاکستان کے شہر کراچی میں نو عمر لڑکی کو اغواء کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرکے لاش کو سمندر کنارے پھینک دیا گیا۔
کراچی کے علاقے عزیز آباد کی رہائشی لڑکی کی عمر 13 سال اور چوتھی جماعت کی طالبہ تھی۔ کراچی پولیس کے مطابق بچی کو دو روز قبل اسکول سے اغوا کیا گیا تھا، جسے اغواء کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ بچی کو اسکے اسکول سے اغوا کیا گیا تھا۔
کم سن بچی کی لاش ملنے کے بعد والدین غم سے نڈھال ہیں۔ بچی کے والد نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ کہ ان کی بیٹی اکلوتی اولاد ہے۔ بچی کے والد نے بتایا کہ 2 روز قبل بچی جب اسکول سے گھر واپس نہ پہنچی تو انہوں نے اغواء کا مقدمہ عزیز آباد تھانے میں درج کرایا جبکہ دوسرے دن اسکی لاش ملی۔
اسکول انتظامیہ نے پولیس کو دیئے گئے بیان میں کہا ہے کہ قتل ہونے والی بچی کو ایک خاتون اسکول سے والدہ کی بیماری کا کہہ کر لے گئی تھی۔ بچی کی لاش سمندر سے برآمد ہونے کے بعد پولیس نے بچی کی لاش کو پوسٹمارٹم کیلئے بھیج دیا جبکہ جمعرات کو پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ پولیس نے نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی خبروں کے مطابق ایس پی انویسٹی گیشن سینٹرل زاہد شاہ کی سربراہی میں بچی کے قتل کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، پولیس کے مطابق اسکول سے بچی کو لے جانے والے ملزم کا خاکہ کلاس ٹیچر کی مدد سے تیار کرایا جائے گا۔
حقوق ِنسواں کیلئے سرگرم تنظیم 'عورت فاونڈیشن' کی ریجنل ڈائریکٹر مہناز رحمان نے وی او اے سے گفتگو میں کہا کہ، ’پاکستان میں زیادتی کے واقعات میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایسے لوگوں کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے پاکستان کی سول سوسائٹی ایسے مسائل کو اجاگر کر رہی ہے مگر یہاں ایک سانحہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا فوری سامنے آجاتا ہے۔‘
پاکستان میں بچوں کے حقوق کی تنظیم ’اسپارک‘ کی ڈائریکٹر زرینہ جیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ، ’پاکستان میں بچوں کیلئے ماحول غیر محفوط ہوتا جا رہاہے، بچوں کے ساتھ جنسی جرائم وارداتیں رونما ہوجائیں توان کی تحقیقات صحیح نہیں ہوتیں نہ ہی مجرم پکڑے جاتے ہیں جس سے معاشرے میں انتشار کی فضا پیدا ہوگئی ہے معاشرے کے ان مسائل کو حکومتی ایوانوں میں بیٹھے افراد کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تبھی مسائل کا حل ممکن ہے۔‘
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنےوالی غیر سرکاری تنظیم ’چائلڈ رائٹ موومنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران 1200 سے زائد بچے زیادتی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ زیادتی کے واقعات میں اضافے کی وجہ مناسب قانون سازی کا فقدان ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس کی طرف سے کارروائی نہ کرنے پر ان جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کراچی کے علاقے عزیز آباد کی رہائشی لڑکی کی عمر 13 سال اور چوتھی جماعت کی طالبہ تھی۔ کراچی پولیس کے مطابق بچی کو دو روز قبل اسکول سے اغوا کیا گیا تھا، جسے اغواء کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا۔ پولیس کا مزید کہنا ہے کہ بچی کو اسکے اسکول سے اغوا کیا گیا تھا۔
کم سن بچی کی لاش ملنے کے بعد والدین غم سے نڈھال ہیں۔ بچی کے والد نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ کہ ان کی بیٹی اکلوتی اولاد ہے۔ بچی کے والد نے بتایا کہ 2 روز قبل بچی جب اسکول سے گھر واپس نہ پہنچی تو انہوں نے اغواء کا مقدمہ عزیز آباد تھانے میں درج کرایا جبکہ دوسرے دن اسکی لاش ملی۔
اسکول انتظامیہ نے پولیس کو دیئے گئے بیان میں کہا ہے کہ قتل ہونے والی بچی کو ایک خاتون اسکول سے والدہ کی بیماری کا کہہ کر لے گئی تھی۔ بچی کی لاش سمندر سے برآمد ہونے کے بعد پولیس نے بچی کی لاش کو پوسٹمارٹم کیلئے بھیج دیا جبکہ جمعرات کو پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی کے ساتھ زیادتی کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ پولیس نے نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی خبروں کے مطابق ایس پی انویسٹی گیشن سینٹرل زاہد شاہ کی سربراہی میں بچی کے قتل کی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، پولیس کے مطابق اسکول سے بچی کو لے جانے والے ملزم کا خاکہ کلاس ٹیچر کی مدد سے تیار کرایا جائے گا۔
حقوق ِنسواں کیلئے سرگرم تنظیم 'عورت فاونڈیشن' کی ریجنل ڈائریکٹر مہناز رحمان نے وی او اے سے گفتگو میں کہا کہ، ’پاکستان میں زیادتی کے واقعات میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایسے لوگوں کو انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے پاکستان کی سول سوسائٹی ایسے مسائل کو اجاگر کر رہی ہے مگر یہاں ایک سانحہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا فوری سامنے آجاتا ہے۔‘
پاکستان میں بچوں کے حقوق کی تنظیم ’اسپارک‘ کی ڈائریکٹر زرینہ جیلانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ، ’پاکستان میں بچوں کیلئے ماحول غیر محفوط ہوتا جا رہاہے، بچوں کے ساتھ جنسی جرائم وارداتیں رونما ہوجائیں توان کی تحقیقات صحیح نہیں ہوتیں نہ ہی مجرم پکڑے جاتے ہیں جس سے معاشرے میں انتشار کی فضا پیدا ہوگئی ہے معاشرے کے ان مسائل کو حکومتی ایوانوں میں بیٹھے افراد کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تبھی مسائل کا حل ممکن ہے۔‘
پاکستان میں بچوں کے حقوق کے لئے کام کرنےوالی غیر سرکاری تنظیم ’چائلڈ رائٹ موومنٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک سال کے دوران 1200 سے زائد بچے زیادتی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ زیادتی کے واقعات میں اضافے کی وجہ مناسب قانون سازی کا فقدان ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس کی طرف سے کارروائی نہ کرنے پر ان جرائم کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔