اسلام آباد —
پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے لاہور میں ایک کم سن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
پنجاب پولیس کے سربراہ کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے اعلیٰ افسران کی سربراہی میں دو ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
لاہور کے علاقے مغل پور سے نامعلوم افراد نے ایک پانچ سالہ بچی کو اغوا کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اورایک روز قبل اسے شہر کے ایک اسپتال کے باہر نیم بے ہوشی کی حالت میں پھینک کر فرار ہوگئے۔
زیر علاج متاثرہ بچی کی حالت ڈاکٹروں کے مطابق خطرے سے باہر ہے لیکن اس کے مزید دو آپریشن کیے جائیں گے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچی جسمانی طور پر سنبھل چکی ہے لیکن نفسیاتی طور پر اب بھی خوف کا شکار ہے اور اس کی حالت ایسی نہیں کہ وہ کوئی بیان دے سکے۔
پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار طاہر رائے نے صحافیوں کو بتایا کہ چند مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی جارہی اور فی الوقت اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
’’ ہم ابھی ملزمان سے متعلق آپ کو معلومات فراہم نہیں کرسکتے، تفتیش جاری ہے اور ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے جس کے ذریعے میں جلد ہی ان تک پہنچ جائیں گے۔‘‘
پاکستان میں خواتین اور بچیوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات اس سے قبل بھی پیش آتے رہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظمیں ان کے تدارک کے لیے موجود قوانین کے موثر نفاذ کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ہفتہ کو صحافیوں سے گفتگو میں اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے۔
’’ایسے جرائم کو ہم کبھی بھی برداشت نہیں کرتے، نہ ماضی میں اس طرح لے مجرموں کو چھوڑا ہے نہ اب چھوڑیں گے آپ ہمارا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں اور مطمیئن رہیں ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔‘‘
ملزمان نے اس بچی کے ساتھ ایک تین سالہ بچے کو بھی اغوا کیا تھا اور اسے بھی اسپتال کے باہر چھوڑ دیا گیا۔
پنجاب پولیس کے سربراہ کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے اعلیٰ افسران کی سربراہی میں دو ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں۔
لاہور کے علاقے مغل پور سے نامعلوم افراد نے ایک پانچ سالہ بچی کو اغوا کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اورایک روز قبل اسے شہر کے ایک اسپتال کے باہر نیم بے ہوشی کی حالت میں پھینک کر فرار ہوگئے۔
زیر علاج متاثرہ بچی کی حالت ڈاکٹروں کے مطابق خطرے سے باہر ہے لیکن اس کے مزید دو آپریشن کیے جائیں گے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بچی جسمانی طور پر سنبھل چکی ہے لیکن نفسیاتی طور پر اب بھی خوف کا شکار ہے اور اس کی حالت ایسی نہیں کہ وہ کوئی بیان دے سکے۔
پولیس کے ایک اعلیٰ عہدیدار طاہر رائے نے صحافیوں کو بتایا کہ چند مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کی جارہی اور فی الوقت اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
’’ ہم ابھی ملزمان سے متعلق آپ کو معلومات فراہم نہیں کرسکتے، تفتیش جاری ہے اور ٹھوس پیش رفت ہوئی ہے جس کے ذریعے میں جلد ہی ان تک پہنچ جائیں گے۔‘‘
پاکستان میں خواتین اور بچیوں کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات اس سے قبل بھی پیش آتے رہے ہیں اور انسانی حقوق کی تنظمیں ان کے تدارک کے لیے موجود قوانین کے موثر نفاذ کا مطالبہ کرتی رہی ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے ہفتہ کو صحافیوں سے گفتگو میں اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے جائیں گے۔
’’ایسے جرائم کو ہم کبھی بھی برداشت نہیں کرتے، نہ ماضی میں اس طرح لے مجرموں کو چھوڑا ہے نہ اب چھوڑیں گے آپ ہمارا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں اور مطمیئن رہیں ان مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔‘‘
ملزمان نے اس بچی کے ساتھ ایک تین سالہ بچے کو بھی اغوا کیا تھا اور اسے بھی اسپتال کے باہر چھوڑ دیا گیا۔