پاکستان کی سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے پڑوسی ملک افغانستان میں دیرپا امن کے حصول کے لیے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اُنھوں نے یہ بات افغانستان سے متعلق شنگھائی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ کے نائب وزرائے خارجہ کے ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں کہی۔
اس اجلاس میں پاکستان، افغانستان، چین، بھارت، روس، قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے نائب وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔
وزارتِ خارجہ سے بدھ کی شب جاری بیان کے مطابق کانفرنس سے خطاب میں سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے پڑوسی ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوتی ہوئی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان کو درپیش چینلجوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں وہ علاقے جہاں حکومت کی عمل داری نہیں ہے اُنھیں داعش، القاعدہ، تحریکِ طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار ایسی دہشت گرد تنظیمیں اپنی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر رہی ہیں، جس سے اُن کے بقول افغانستان کے پڑوسی ممالک کے لیے خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔
تہمینہ جنجوعہ نے پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی جلد واپسی کی اہمیت اور پڑوسی ملک میں منشیات کی پیداوار کو کم کرنے پر بھی زور دیا۔
افغانستان سے متعلق شنگھائی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ کے اراکین نے افغانستان میں امن و استحکام کے لیے افغانوں کی زیرِ قیادت امن عمل میں سہولت کاری پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
اس کے علاوہ رابطہ گروپ نے سکیورٹی صورت حال اور دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے افغان حکومت کی اعانت کے ممکنہ طریقوں پر بھی بات کی۔
کانفرنس میں شامل تمام اراکین نے افغانستان اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان رابطوں کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کی متفقہ طور پر حمایت کی۔
افغانستان سے متعلق شنگھائی تعاون تنظیم کے رابطہ گروپ کا آئندہ اجلاس 2018 کے اوائل میں بیجنگ میں ہو گا۔
افغانستان میں امن کے حصول کے لیے مذاکرات کی بحالی کی کوششیں ایک بار پھر تیز ہوگئی ہیں۔
اسی مقصد کے لیے عمان میں آئندہ ماہ افغانستان، پاکستان، چین اور امریکہ کے نمائندوں کا ایک اجلاس ہونا ہے، جس میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے بات چیت کی جائے گی۔
افغان طالبان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اُن کا چار ملکی مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔