امریکہ دنیا بھر میں صنفی مساوات ختم کر کے خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق دلانے، بالخصوص عورتوں کو معاشی لحاظ سے مستحکم بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں واشنگٹن میں محکمہ خارجہ میں ہونے والی ایک تقریب میں وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو مردوں کے مساوی مقام پر لانا دنیا کے چند اہم ترین چیلنجز میں سے ایک ہے جس سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ معاشی میدان میں خواتین کی مکمل شراکت کو فروغ دیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وبائی مرض کووڈ سے بحالی کے بعد دنیا اپنے معمول کی جانب لوٹ رہی ہے جس میں خواتین اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں ہم نے جو حکمت عملی تیار کی ہے وہ ایک ایسی دنیا کی تشکیل ہے جس میں ہر جگہ اور ہر مقام پر خواتین اور لڑکیاں اپنا حصہ ڈال سکیں اور معاشی اور عالمی خوش حالی سے فائدہ اٹھا سکیں۔ یہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں سب کے لیے فائدہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم 2025 تک افرادی قوت میں صنفی تفریق ختم کرنا چاہتے ہیں جس سے معیشت میں 28 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہو گا۔
وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ اس حکمت عملی پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ امتیازی پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے اور خواتین کو مردوں کے مساوی تنخواہ اور دیگر معاشی سہولتوں کا حق دار بنایا جائے۔ جس کے لیے بعض ممالک میں رائج ایسے قوانین کا خاتمہ کیا جانا چاہیے جو توانائی، مینوفییکچرنگ اور کئی دیگر صنعتوں میں خواتین کی شرکت پر پابندی لگاتے ہیں۔ ان رویوں اور طرز عمل سے بھی نمٹنا ضروری ہے جو خواتین پر تعلیم اور محنت کی مارکیٹ میں شمولیت کا راستہ مسدود کرتے ہیں۔
SEE ALSO: خواتین امدادی کارکنوں پر طالبان کی پابندی کے بعد اقوام متحدہ نے کچھ پروگرام معطل کر دئےبلنکن نے خواتین کو مردوں کے مساوی مقام دلانے کے لیے امریکی حکمت عملی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جو حکمت عملی ترتیب دی ہے وہ ان تمام شعبوں میں خواتین اور لڑکیوں کی مدد کرنے پر مرکوز ہے جہاں انہیں سب سے زیادہ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم افغانستان سمیت ان تمام مقامات پر خواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دینے کے لیے پرعزم ہیں جہاں ان کے حقوق خطرے میں ہیں۔
انٹنی بلنکن نے اپنی تقریر میں امریکی حکمت عملی کے چار اہم نکات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب سے پہلے خواتین کو معاشی مسابقت میں آگے بڑھائیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ خواتین تمام اہم شعبوں میں کلیدی کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ قیادت بھی کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہم یورپ کے 18 ملکوں میں خواتین کے چیمبر آف کامرس اور خواتین کی کاروباری انجمنوں کے قیام کے لیے انہیں تکنیکی مدد اور تربیت فراہم کریں گے۔
دوسرا یہ کہ کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کے دنوں میں اکثر کارکن خواتین کو اپنے بچوں اور بزرگوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنی ملازمتیں چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہم ایک ایسا بندوبست کرنا چاہتے ہیں جس سے خواتین اپنے کام پر واپس آسکیں۔ اس حوالے سے ورلڈ بینک انویسٹ ان چائلڈ کیئر جیسے پروگراموں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے جس سے دنیا بھر میں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بچوں کو معیاری اور سستی نگہداشت تک رسائی مل سکے۔
SEE ALSO: خواتین کےحقوق سلب کرنے کی طالبان کی ٹائم لائنہمارا تیسرا نکته ہے کہ ہم خواتین کی انٹرپرینیورشپ کو فروغ دیں گے ۔ ہم یو ایس انڈیا الائنس فار ویمنز اکنامک امپاورمنٹ جیسے اقدامات کو فروغ دینا چاہتے ہیں، جو خواتین کو تکنیکی مہارت اور نیٹ ورکنگ کے مواقع فراہم کرنے کے لیے نجی شعبے اور سول سوسائٹی کو جوڑتا ہے تاکہ انہیں اپنے کاروبار کو بڑھانے میں مدد مل سکے۔ اس سلسلے میں گوگل انڈیا نے بھارت میں 10 لاکھ خواتین کی کاروباری شعبے میں شمولیت کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ہم اس تعداد کو بڑھانے کے لیے دوسرے پارٹنرز کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔
اور آخری نکتہ یہ ہے کہ ہم شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کریں گے تاکہ ان سماجی، قانونی، اور ریگولیٹری رکاوٹوں کو ختم کرنے میں مدد ملے جو خواتین کو مساوی مواقع فراہم کرنے کی راہ میں حائل ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے قوانین جو خواتین کے لیے مخصوص شعبوں اور حیثیتوں میں کام کرنا زیادہ مشکل بناتے ہیں، ان کے کیریئر کو محدود کرتے ہیں۔