رسائی کے لنکس

خواتین امدادی کارکنوں پر طالبان کی پابندی کے بعد اقوام متحدہ نے کچھ پروگرام  معطل کر دئے


 کابل میں ایک طالبان جنگجو پہرہ دے رہا ہے جب کہ ایک خاتون وہاں سے گزر رہی ہے ۔فوٹو اے پی۔ 26 دسمبر 2022
کابل میں ایک طالبان جنگجو پہرہ دے رہا ہے جب کہ ایک خاتون وہاں سے گزر رہی ہے ۔فوٹو اے پی۔ 26 دسمبر 2022

اقوام متحدہ نے بدھ کے روز کہا کہ افغانستان میں فوری توجہ کے حامل کچھ اہم پروگرام عارضی طور پر روک دیے گئے ہیں اور انتباہ کیا کہ طالبان کی زیر قیادت انتظامیہ کی جانب سے خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی کی وجہ سے بہت سی دوسری سرگرمیوں کو بھی امکانی طور پر روکنے کی ضرورت ہوگی۔

امدادی کارروائیوں سے متعلق اقوام متحدہ کے سربراہ مارٹن گریفتھس، اقوام متحدہ کے اداروں کے سربراہان اور متعدد امدادی گروپس نے ایک مشترکہ بیان میں حکام سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امداد کی ترسیل میں خواتین کی شرکت پر کوئی بات چیت نہیں ہو سکتی اور اسے جاری رہنا چاہیے۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ خواتین پر انسانی ہمدردی کے کام پر پابندی سے تمام افغان شہریوں پر فوری جان لیوا اثرت مرتب ہو سکتے ہیں جب کہ خواتین کے عملے کی کمی کے باعث پہلے ہی فوری نوعیت کے کچھ پروگرام عارضی طور پر روکنےپڑے ہیں ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ انسانی ہمدردی کی ایک کمیونٹی کے طور پر ہمیں جن رکاوٹوں کا سامنا ہے ہم انہیں نظر انداز نہیں کر سکتے ۔ ہم زندگی بچانے والی فوری توجہ کی حامل سر گرمیاں جاری رکھنے کی کوشش کریں گے ۔ لیکن ہماری پیش گوئی ہے کہ بہت سی سر گرمیوں کو روکنے کی ضرورت ہوگی کیوں کہ خواتین امدادی کارکنوں کے بغیر ہمارے لئے انسانی ہمدردی کی اصولی امداد کی ترسیل ممکن نہیں ہے ۔

خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی کا اعلان اسلام پرست طالبان کی زیر قیادت انتظامیہ نے ہفتے کے روز کیا تھا ۔ اس سے قبل گزشتہ ہفتے خواتین پر یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی عائد کی گئی تھی جب کہ مارچ میں لڑکیوں کو ہائی اسکول جانے سے روک دیا گیا تھا۔

بیان میں جس پر یونیسیف ، عالمی ادارہ خوراک، عالمی ادارہ صحت ، اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اور پناہ گزینوں اور انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنرز کے سربراہان کے بھی دستخط تھے کہا گیا کہ کوئی بھی ملک اپنی آبادی کے نصف حصے کو معاشرے میں اپنے کردار کی ادائیگی سے روکنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

12 ملکوں اور یورپی یونین نے بھی الگ سے مشترکہ طور پر طالبان سےمطالبہ کیا کہ وہ خواتین امدادی کارکنوں پر عائد پابندی کا فیصلہ واپس لیں اور خواتین اور لڑکیوں کو اسکول واپس جانے کی اجازت دیں ۔

یہ مشترکہ بیان آسٹریلیا ، کینڈا، ڈنمارک، فرانس ، جرمنی ، اٹلی ، جاپان ، ناروے ، سوئٹزر لینڈ ، نیدرلینڈز ، برطانیہ ، ریاستہائے متحدہ امریکہ اور یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے جاری کیا ۔

اس بیان میں کہا گیا کہ خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی نےافغانستان کے ان لاکھوں لوگوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے جو اپنی بقا کے لئے انسانی ہمدردی کی امداد پر انحصار کرتے ہیں ۔

چار بڑے عالمی گروپس نے جن کی انسانی امداد افغانستان کے لاکھوں افراد تک پہنچ چکی ہے اتوار کو کہا کہ وہ اپنی کارروائیاں عارضی طور پر روک رہے ہیں کیوں کہ وہ خواتین عملے کے بغیر اپنے پروگرام نہیں چلا سکتے۔

اقوام متحدہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی ایک ایسے وقت میں عائد کی گئی ہے جب افغانستان میں 28 ملین سے زیادہ لوگوں کو زندہ رہنے کےلئے امداد کی ضرورت ہے جب کہ ملک کو قحط کے حالات، معاشی بدحالی، غربت اور سخت سردی کے خطرے کا سامنا ہے ۔

اقوام متحدہ کے اداروں اور امدادی گروپس نے ، جن میں ورلڈ ویژن انٹرنیشنل، کیئر انٹرنیشنل، سیو دی چلڈرن یو ایس، مرسی کور اور انٹرایکشن شامل ہیں تمام خواتین، مردوں اور بچوں کو درکار غیر جانبدار ، اصولی، زندگی بچانے والی امداد فراہم کرنے کے اپنے عزم پر سختی سے کاربند رہنے کا عہد کیا ۔

طالبان نے گزشتہ سال اگست میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ انہوں نے بیس سال قبل اپنے دور اقتدار میں لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ تر پابندی عائد کر دی تھی لیکن اب کہا تھا کہ ان کی پالیسیاں بدل چکی ہیں۔

طالبان کی زیر قیادت انتظامیہ کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے ۔

XS
SM
MD
LG