ہیکرز کی جانب سے نگرانی کے لیے لگائے جانے والے کیمروں کے نظام کو ہیک کرنے کی کوششوں اور بعض مقامات پر ان کی کامیابی سے سرویلنس کیمروں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
ہیکرز اسپتالوں، تعلیمی اداروں، کارخانوں، جیلوں اور دفاتر میں بڑے پیمانے پر لوگوں کی نگرانی کے لیے لگائے کیمروں کے نظام سے رسائی حاصل کر رہے ہیں۔
امریکہ کی ریاست کیلی فورنیا میں شروع کیے گئے ایک اسٹارٹ اپ (چھوٹے پیمانے کے کاروبار) 'ورکاڈا' نے بدھ کو اپنے سیکیورٹی نظام میں مداخلت کے حوالے سے مطلع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مداخلت کے دائرہ کار کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ کے مطابق 'ورکاڈا' کے نظام میں مداخلت کی رپورٹ سب سے پہلے 'بلوم برگ' کے ذریعے سامنے آئی تھی۔ اس کمپنی کے حکام نے واضح کیا ہے کہ ان کے نظام میں مداخلت کی سب سے پہلے اطلاع سیکیورٹی اداروں کو کی گئی تھی۔ بعد ازاں صارفین کو بھی مطلع کر دیا گیا تھا۔
'اے پی' کے مطابق سوئٹزر لینڈ کے ہیکر اور 'اے پی ٹی 69420 آرسن کیٹس' نامی گروہ کے رکن ٹائلی کوٹمان کا کہنا تھا کہ یہ عمل کسی چھوٹے گروہ کی کارستانی ہو سکتی ہے۔ ان کے خیال میں یہ عمل کسی ہم جنس پرست گروہ کا عمل بھی ہو سکتا ہے جن کی پشت پناہی پر کوئی ملک یا ریاست نہیں ہے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایسا صرف تفریح کی غرض سے کیا گیا ہو۔
ٹائلی کوٹمان نے کہا کہ ان ہیکرز نے 'ورکاڈا' کے سپر ایڈمنسٹریٹر اکاؤنٹ تک آن لائن دستیاب مصدقہ معلومات کے ذریعے رسائی حاصل کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
دوسری جانب 'ورکاڈا' نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے تمام داخلی ایڈمنسٹریٹر اکاؤنٹس کو معطل کر دیا ہے تاکہ کسی غیر مجاز کو نظام تک رسائی حاصل نہ ہو۔
واضح رہے کہ ہیکرز نے دعویٰ کیا تھا کہ دو دن تک انہیں بے شمار کیمروں کی لائیو فیڈ تک رسائی حاصل رہی تھی جن میں بعض حساس مقامات پر نصب کیمرے بھی تھے جن میں اسپتال اور اسکول شامل ہیں۔
ہیکرز کو جن کیمروں تک رسائی حاصل ہوئی تھی ان کے بارے میں ٹائلی کوٹمان کہتے ہیں کہ ان میں سینڈی ہک ایلمنٹری اسکول کے داخلی اور بیرونی کیمرے شامل تھے۔ ریاست کنیٹی کٹ کے اس اسکول میں 2012 میں فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں پہلی جماعت کے 26 کم سن طلبہ اور چھ اساتذہ مارے گئے تھے۔ یہ واقعہ امریکہ کی تاریخ میں فائرنگ کے ہلاکت خیز واقعات میں شمار ہوتا ہے۔
سان فرانسسکو میں 'ورکاڈا' کے متاثرہ صارفین میں 'کلاؤڈفلیر' بھی شامل ہے جو کہ ویب انفراسٹرکچر اور سیکیورٹی سے متعلق خدمات فراہم کرنے والی کمپنی ہے۔
کلاؤڈ فلیر کے منتظمین کے مطابق اس کے جو کیمرے ہیک ہوئے وہ دفاتر کے مرکزی اور داخلی دروازوں پر نصب ہیں۔ البتہ گزشتہ ایک برس سے کرونا وبا کے باعث بیشتر دفاتر بند ہیں۔
اسی طرح دیگر کئی صارفین نے بھی بتایا کہ ان کے کیمروں تک ہیکرز نے رسائی حاصل کی تھی۔ اور جیسے ہی ان صارفین کو مطلع کیا گیا انہوں نے کیمرے بند کر دیے۔
خیال رہے کہ سوشل میڈیا ویب سائٹ 'ٹوئٹر' نے ٹائلی کوٹمان کا اکاؤنٹ پالیسی کی خلاف ورزی پر معطل کر دیا ہے۔ انہوں نے ورکاڈا کے نظام کو ہیک ہونے کے بعد جمع ہونے والی متعدد معلومات اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کی تھیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہیکرز نے ورکاڈا کا نظام ہیک کرنے کے بعد امریکہ کی کار ساز کمپنی 'ٹیسلا' کے چین میں تنصیبات اور امریکی راست الاباما کی میڈیسن کاؤنٹی جیل کی ویڈیو فوٹیج شیئر کی تھیں۔
ٹیسلا نے تو اس معاملے پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ البتہ الاباما کی جیل کے حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کی ویڈیو کے غیر مجاز اجرا سے عملے اور دیگر کی حفاظت کو خطرات لاحق نہیں ہوں گے۔
واضح رہے کہ ورکاڈا کیلی فورنیا کی ایک کلاؤڈ بیس نگرانی اور سیکیورٹی کی کمپنی ہے۔ اس کے نظام میں شامل ہے کہ وہ لوگوں کے چہروں کو شناخت کر سکے اور ان کے لباس اور دیگر تفصیلات کے ساتھ تمام معلومات اپنے نظام میں محفوظ کر لے۔ لیکن یہ سروسز کمپنی کے تمام صارفین کو حاصل نہیں ہے۔
ورکاڈا گزشتہ سال بھی خبروں کا حصہ رہنے والی کمپنی ہے۔ اس کے حوالے سے ویڈیو سروئلنس انڈسٹری سے متعلق خبریں دینے والی ویب سائٹ 'آئی پی وی ایم' نے رپورٹ کیا تھا کہ ورکاڈا کے ملازمین نے اپنے ساتھ کام کرنے والی خواتین کی تصاویر دفتر کے اندر نگرانی کے لیے لگائے گئے کیمروں سے حاصل کی تھیں اور پھر ان تصاویر پر جنس کی بنیاد پر نامناسب تبصرے کیے تھے۔
مبصرین کے مطابق ہیکنگ کے حالیہ واقعے سے واضح ہوتا ہے کہ حقیقی زندگی کی معلومات غلط ہاتھوں تک جانے کے اندیشہ موجود ہے۔