اردن کے ایک سفارت کار نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یمن کی ’سنگین صورت حال‘ پر انسانی بنیادوں پر اپنی تشویش کا اعادہ کیا ہے، اور یہ کہ ایک قرارداد زیر غور ہے، جس میں انسانی بنیادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سعوی عرب سے فضائی کارروائی روکنے کے لیے کہا جائے گا۔
اقوام متحدہ میں اردن کی سفیر، دینا کاور نے کہا ہےکہ سلامتی کونسل کے ارکان کو یہ توقع ہے کہ روس کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد پر پیر کو فیصلہ ہوگا۔
اِن خیالات کا اظہار، اُنھوں نے اِس ماہ کے لیےکونسل کی صدر کی حیثیت سے اپنے خطاب میں کیا۔
روس کی درخواست پر، ارکان نے ہفتے کے روز یمن پر ایک ہنگامی اجلاس بلایا، جو 15 رکنی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔
سعودی عرب، اُس ’عرب اتحاد‘ کا سرکردہ رکن ہے جس نے ایک ہفتے سے یمن میں حوثی شیعہ باغیوں پر بمباری جاری رکھی ہے۔ یہ فضائی کارروائی ہفتے کو بھی جاری رہی، جِس دوران دارلحکومت، صنعا میں باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
اقوام متحدہ میں روس کے معاون سفیر، ولادیمیر سفرونکوف نے کہا ہے کہ فوجی کارروائی میں وقفہ دینے سے اِس تنازع میں یمن سے سفارت کاروں اور شہریوں کی بحفاظت انخلا کے کام میں مدد ملے گی۔
ادھر، اقوام متحدہ میں برطانیہ کے معاون سفیر، پیٹر ولسن نے شہریوں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ برطانیہ عرب اتحاد کی حمایت جاری رکھے گا۔
اُنھوں نے کہا ہے کہ یمن میں شیعہ باغیوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کا آغاز گذشتہ ہفتے اُس وقت ہوا جب یمن کے صدر عبدالربو منصور ہادی کی جانب سے ’باضابطہ درخواست‘ پر ہوا۔
ولسن کے بقول، ’ہم اِس نہج پر اس لیے پہنچے ہیں، کیونکہ حوثیوں نے جنگ بندی کی بار بار خلاف ورزی کی، فوجی کارروائی جاری رکھی، حقیقی نوعیت کی سیاسی بات چیت کے بجائے طاقت کا استعمال شروع کیا‘۔
اُنھوں نے مزید کیا کہ، ’اِس بحران سے نکلنے کا واحد طریقہ برابری کی بنیاد پر حقیقی سیاسی مذاکرات کی طرف لوٹنے میں پنہاں ہے، نہ کہ طاقت کا استعمال میں‘۔
یہ بند کمرے کا اجلاس تھا جو روس کی درخواست پر ہوا، جس میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر یمن میں سعودی قیادت میں جاری فضائی کارروائیوں میں وقفے کی درخواست کرنا ہے۔
یمن میں گزشتہ سال شیعہ حوثی باغیوں نے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا اور اس ملک میں یہ قبائل ایک نئی پرتشدد قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں جنہوں نے مختلف علاقوں میں قبضوں کے لیے پیش قدمی شروع کر رکھی ہے۔
حکومت کی عملداری تقریباً ختم ہوتی جا رہی ہے اور یمن کے صدر عبدالربو منصور ہادی پہلے صنعا اور پھر عدن سے اطلاعات کے مطابق سعودی عرب منتقل ہو چکے ہیں۔
سعودی عرب نے گزشتہ ماہ کے اواخر میں اپنے خلیجی اور عرب اتحادیوں کے ساتھ مل کر حوثی باغیوں کو یمن میں فضائی کارروائیوں کے ذریعے نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس لڑائی میں اب تک کم از کم 500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
اقوام متحدہ میں روس کے مشن کا کہنا ہے کہ 15 رکنی کونسل کے اجلاس میں "اتحادیوں کی یمن میں فضائی کارروائیوں کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر روکنے کے معاملے پر بات چیت کی جائے گی۔"
یمن میں لڑائی کے دوران بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتوں پر بھی اقوام متحدہ کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور اس کے عہدیداروں کے بقول اب تک 60 سے زائد بچے بھی اس تنازع میں مارے جا چکے ہیں۔
سعودی عرب نے یمن میں باغیوں کے خلاف جاری آپریشن کے لیے کئی دیگر ممالک سے شرکت کے لیے رابطے کیے ہیں جبکہ اسی تناظر میں گزشتہ ہفتے عرب لیگ کے ہونے والے اجلاس میں ایک مشترکہ عرب فورس تشکیل دینے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اس فورس میں کم ازکم 40 ہزار اہلکار شامل ہوں گے جنہیں لڑاکا طیاروں، جنگی بحری جہازوں اور توپ خانوں کی مدد بھی حاصل ہوگی۔