وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ ’میمو‘ اسکینڈل کا انکشاف کرنے والے امریکی شہری منصور اعجاز کی پاکستان آمد پر انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
ہفتہ کو صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ ’میمو‘ کی تحقیقات کرنے والے عدالتی تحقیقاتی کمیشن کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ملکی قوانین کے مطابق امریکی شہری کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
’’میں سمجھتا ہوں کہ سیکرٹری داخلہ ان کو حفاظت فراہم کرنے کے ذمہ دار ہوں گے، جب کہ ہمارے پاس رینجرز بھی ہے، ایف سی بھی ہے، پولیس بھی ہے اور یہ تمام سیکورٹی فورسز ہیں لیکن اس کے باوجود اگر فوج کی ضرورت ہے تو فوج بھی آئے ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ (فوج) قانون کے مطابق آئے گی‘‘۔
امریکی حکام کو لکھے گئے متنازع ’میمو‘یا مراسلے کا ایک اخباری مضمون کے ذریعے انکشاف کرنے والے امریکی شہری منصور اعجاز نے ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو میں کہا کہ وہ پاکستان پہنچ کر شواہد عدالتی کمیشن کو پیش کریں گے۔
ممیو اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے تین رکنی عدالتی کمیشن نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو حکم دیا تھا کہ منصور اعجاز کی پاکستان آمد کے موقع پر انھیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے اور ان کی حفاظت پولیس کے علاوہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ بھی کرے۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں قائم کمیشن اپنی آئندہ سماعت 24 جنوری کو کرے گا۔
منصور اعجاز نے کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لیے رواں ہفتے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن جا کر ویزا حاصل کیا تھا اور انھوں نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے اپنے تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ ممیو سے متعلق شواہد کمیشن کو پیش کریں گے۔
امریکی شہری منصور اعجاز کے وکیل اکرم شیخ کا کہنا ہے کہ تحقیقاتی کمیشن کے حکم کے مطابق ان کے مؤکل کی حفاظت کی ذمہ داری فوج کو ہی سونپی گئی ہے اس لیے حکومت کمیشن کے فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔
ادھر اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان مارک اسٹرو نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ منصور اعجاز امریکی شہری ہیں اور انھیں معمول کے مطابق وہ تمام سہولتیں حاصل ہوں گی جو امریکی شہری کو ہوتی ہیں۔
لیکن ترجمان نے کہا کہ ’’منصور اعجاز کی سکیورٹی کے حوالے سے اضافی یا خصوصی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں کیوں کہ سفارت خانہ عمومی طور پر اپنے شہریوں کے لیے ایسا نہیں کرتا‘‘۔
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی بھی میمو اسکینڈل کی تحقیقات کر رہی ہے اور اس نے امریکی شہری منصور اعجاز 26 جنوری کو کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
متنازع ’میمو‘ کے مبینہ مرکزی کردار سابق سفیر حسین حقانی عدالتی کمیشن کے روبرو اپنے بیان میں متنازع مراسلے سے اظہار لاتعلقی کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے نا تو میمو تحریر کیا اور نا ہی اسے امریکی حکام کو بھیجنے میں ان کا کوئی کردار تھا۔
صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور حکومت کے دیگر نمائندے میمو کو محض کاغذ کا ایک ’’بے وقعت ٹکڑا‘‘ اور اسے جمہوری نظام کے خلاف سازش کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
لیکن پاکستانی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہان نے سپریم کورٹ میں اپنے بیانات حلفی میں میمو کو ایک حقیقت قرار دے کر اس کی تحقیقات پر زور دیا ہے۔ حکومت اور فوج کے درمیان میمو پر یہ اختلاف رائے ریاست کے ان دونوں اداروں کے درمیان حالیہ کشیدگی کی بڑی وجہ بنا۔