میمو اسکینڈل کے مرکزی کردار منصور اعجاز نے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت پر اُنھیں ’’پھانسنے‘‘ کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پاکستان آ کر اس معاملے کی تحقیقات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔
پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین کے وکیل اکرم شیخ نے پیر کو سپریم کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے موکل کی رضا مندی سے لکھا گیا ایک بیان پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا ہے کہ منصور اعجاز کے اپنی جان و مال کے تحفظ سے متعلق خدشات کو دور کرنے کے لیے حکومت اور پولیس کی طرف سے کوئی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے۔
’’بظاہر یہ منصور اعجاز کو غیر معینہ مدت تک پاکستان میں روکنے کا جامع منصوبہ لگتا ہے۔‘‘
اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ ان حالات کے تناظر میں اُن کے موکل نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیشن سے درخواست کریں گے کہ اُن کا بیان لندن یا سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں ریکارڈ کیا جائے۔
منصور اعجاز نے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائض عیسیٰ کی سربراہی میں قائم تین رکنی تحقیقاتی کمیشن کے منگل کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں پیش ہونے کا اعلان کر رکھا تھا۔
اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ منصور اعجاز پاکستانی پارلیمنٹ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے سامنے بھی پیش نہیں ہوں گے کیوں کہ اس کو کسی غیر ملکی شخص کو طلب کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔
البتہ اُن کے بقول پارلیمانی کمیٹی منصور اعجاز سے وقت لے کر لندن یا زیورخ میں ان کی گواہی ریکارڈ کر سکتی ہے۔
مقامی میڈیا سے گفتگو کے بعد اکرم شیخ نے عدالتی کمیشن کو باقاعدہ درخواست پیش کی کہ چونکہ اُن کے موکل پاکستان نہیں آ سکتے اس لیا اُن کا بیان بیرون ملک ریکارڈ کیا جائے۔
اس پیش رفت کے بعد امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے بھی کمیشن سے درخواست کی ہے کہ منصور اعجاز کا اپنا بیان ریکارڈ کرانے کا حق منسوخ کیا جائے کیوں کہ وہ اس سلسلے میں پہلے ہی موقعے ضائع کر چکے ہیں۔
ادھر میمو اسکینڈل کی تحقیقات میں وفاق کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل مولوی انوار الحق نے اکرم شیخ کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت نے کمیشن کے احکامات کے تحت منصور اعجاز کو مکمل سکیورٹی فراہم کرنے کے مکمل انتظامات کر لیے گئے ہیں اور اس میں فوج کی شمولیت بھی شامل ہے۔
’’میں نے اُن (اکرم شیخ) کو یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ آئین، قانون اور قوائد و ضوابط کی روشنی میں جس قسم کے بھی ہمارے پاس وسائل دستیاب ہیں اُن (منصور اعجاز) کی سکیورٹی کے لیے استعمال کیے جائیں گے۔‘‘