جنرل لائڈ آٓسٹن نے بدھ کے روز کہا ہے کہ تربیت یافتہ چند افراد اب بھی شام میں لڑ رہے ہیں، جب کہ شام میں القاعدہ سے منسلک ایک دھڑے نے حالیہ دنوں خصوصی تربیتی پروگرام کے پہلے 54 گریجوئیٹس کو ہدف بنایا ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مسلح افواج کی سماعت کے دوران جنرل نے تسلیم کیا کہ یہ پروگرام ’سست روی‘ سے ٓگے بڑھ رہا ہے؛ اور اُنھوں نے کہا کہ امریکہ اپنا اصل ہدف حاصل نہیں کر پائے گا، جس کا مقصد 5000 سے زائد شامیوں کو تربیت فراہم کرنا تھا۔
امریکہ کی معاون وزیر دفاع، کرسٹین ورموتھ نے کمیٹی کو بتایا کہ صرف 100 سے 120 شامی لڑاکا فورس تربیت حاصل کر رہی ہے۔
سماعت کے دوران، ریپبلیکن سینیٹر، کیلی ایوٹے نے بتایا کہ امریکی تربیت حاصل کرنے والے باغی لڑاکوں کی تعداد ’ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے‘۔
امریکی انتظامیہ کی جانب سے 50 کروڑ ڈالر کی لاگت سے شروع کیے گئے اس پروگرام کا مقصد ہر سال 5400 شامیوں کو بھرتی کرنا تھا، اور یہ پروگرام تین سال تک جاری رہنا تھا، جو تربیت یافتہ گروپ داعش سے نبرد آزما بننے کے قابل ہوتا۔
آسٹن امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ ہیں۔ سماعت کے دوران وہ سخت ہدف تنقید بنے، جس نشست کی صدارت سینیٹ کے پینل کے سربراہ، جان مک کین تھے، جنھوں نے شام میں امریکی کوششوں کو ’سریح ناکامی‘ قرار دیا۔
آسٹن نے اس بات کا عہد کیا کہ اگر جاری تفتیش سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ اعلیٰ دفاعی اہل کاروں نے امریکی پیش رفت کو بڑھا چڑھا پیش کرنے کی غرض سے داعش اور دیگر شدت پسند گروہوں کے بارے میں رپورٹس میں مبالغے سے کام لیا تو الزام ثابت ہونے پر کے خلاف ’مناسب کارروائی‘ کی جائے گی۔