فلم 'زندگی تماشا' پر پابندی نہیں لگائی گئی: سینسر بورڈ

Zindagi-tamasha

پاکستان فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین دانیال گیلانی کا کہنا ہے کہ فلم 'زندگی تماشا' پر پابندی نہیں لگائی گئی، البتہ مذہبی جماعت کی جانب سے احتجاج کی کال کے باعث اس کے اجرا (ریلیز) کو التوا میں ڈالا گیا ہے۔

سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کو فلم کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے دانیال گیلانی نے بتایا کہ زندگی تماشا نے 24 جنوری کو ریلیز ہونا تھا۔ تاہم، مذہبی جماعت، تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے احتجاج کے اعلان کے بعد اس کی ریلیز کو التوا میں ڈالا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعت نے احتجاج کی کال اس روز دی جب بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم پاکستان پہنچ رہی تھی۔ اس وجہ سے ان پر فلم کو ریلیز نہ کرنے کے حوالے سے خاصا دباؤ تھا۔

فلم سینسر بورڈ کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے فلم پر اعتراض کے بعد اس فلم کا فل بورڈ جائزہ لیا گیا اور قابل اعتراض مواد کو نکال دیا گیا۔

خیال رہے کہ معروف اداکار و ہدایتکار سرمد سلطان کھوسٹ کی فلم ’زندگی تماشا‘ 24 جنوری کو ریلیز ہونا تھی، جو کہ مذہبی گروہ کی جانب سے اعتراض کے بعد تنازع کا شکار ہو گئی۔

سرمد سلطان کھوسٹ نے اپنے ٹوئٹ میں انکشاف کیا ہے کہ انہیں فلم ’زندگی تماشہ‘ کو ریلیز کرنے سے روکنے کے لیے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

'ریاست مذہبی گروہ کے ہاتھوں یرغمال نہیں بنے گی'

دانیال گیلانی نے کہا کہ فلم پر قابل اعتراض مواد کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے سینسر بورڈ نے معاملے کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بجھوایا ہے جس پر کونسل کے اراکین رواں ہفتے فلم دیکھیں گے۔

کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ آئین کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے پاس اختیار نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات کا براہ راست جائزہ لے۔ انہوں نے کہا کہ نظریاتی کونسل صرف انہی معاملات کو دیکھ سکتا ہے جو پارلیمنٹ کی جانب سے بجھوائے جائیں۔

مصطفیٰ نواز کا کہنا تھا کہ کیا ریاست چند مذہبی لوگوں کے گروہ کے ہاتھوں یرغمال بنے گی یا آئین و قانون کے مطابق معاملات چلائے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ''ہمیں ایسے مذہبی گروہ جو ریاست کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں، جنہوں نے دو بار اسلام آباد پر حلہ بولا، جنہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف کے خلاف کفر کے فتوے لگائے، ریاست کو ان کے دباؤ میں نہیں آنا''۔

انہوں نے کہا کہ ریاست آئین و قانون کے مطابق چلائی جاتی ہے اور اگر معاملات کو اس طریقے سے چلانا ہے تو پھر پارلیمنٹ کو بند کر دینا چاہئے۔

مصطفیٰ نواز کا کہنا تھا کہ "سیاست دانوں کے خلاف بہت سی فلمیں اور ڈرامے بنائے جاتے ہیں۔ لیکن، ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا اگر آج مذہبی گروہ کے اس اعتراض کو مانا گیا تو کل یہ بابا بھلے شاہ اور بابا فرید کی ملاں کے خلاف شاعری پر بھی اعتراض کریں گے۔"

چیئرمین کمیٹی اور اراکین کی جانب سے فلم میں قابل اعتراض مواد بتانے کے اسرار فلم سینسر بورڈ کے چیئرمین نے اجلاس کو ان کیمرہ کرنے کی استدعا کی جس کے بعد مزید کارروائی بند کمرہ اجلاس میں تبدیل کردی گئی۔

'سینیٹ کمیٹی پتلی تماشہ کا جائزہ لے گی'

اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی مصطفیٰ نواز کھوکھر کا کہنا تھا کہ کمیٹی نے سینسرشپ بورڈ کو فلم زندگی تماشہ کا تنقیدی جائزہ لینے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کو دکھانے سے روک دیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ انسانی حقوق کی کمیٹی فلم کا خود جائزہ لے گی۔

انہوں نے کہا کہ سینسر بورڈ کی بریفنگ کے مطابق، فلم میں بظاہر کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی اور فلم کا جائزہ لینے کے بعد اگر قابل اعتراض بات نہ دیکھائی دی تو فوری ریلیز کا فیصلہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر فلم میں قابل اعتراض بات لگی تو معاملے کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

مصطفیٰ نواز نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ تحریکِ لبیک پاکستان نے اپنے زیر حراست لوگوں کو چھڑوانے کے لئے فلم کی بنیاد بنا کر دباؤ ڈالا۔

خیال رہے کہ ایک مذہبی گروہ کی جانب سے فلم کے ٹریلر اور اشتہار کے ریلیز ہونے کے بعد اعتراض کیا گیا کہ اس میں ایک مخصوص مکتب فکر کو ہدف بنایا گیا ہے۔

سرمد کھوسٹ نے اپنی فلم سے متعلق وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فلم میں کسی خاص فرقے کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا، بلکہ یہ ایک اچھے مسلمان کی زندگی پر مبنی کہانی ہے۔ اگر داڑھی رکھنے والا شخص مولوی کہلاتا ہے تو یقین کیجیے یہ فلم ایک اچھے مولوی سے متعلق ہے۔