پاکستان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) میں حزبِ اختلاف کی اکثریت کے باوجود حکومت ملک کے مرکزی بینک کی خودمختاری کے حوالے سے 'اسٹیٹ بینک ترمیمی بل' ایک ووٹ سے منظورکرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
حکومت نے قرض کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے رواں ماہ ہی ضمنی مالیاتی بل اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری سے متعلق بل قومی اسمبلی سے کثرت رائے سے منظور کرائے تھے۔
جمعے کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین صادق سنجرانی کی صدارت میں شروع ہوا تو ایوان میں حکومتی سیینٹرز کی تعداد حزبِ اختلاف کے مقابلے میں کم دکھائی دی۔ حزبِ اختلاف کے سیینٹرز نے اصرار کیا کہ اسٹیٹ بینک ترمیمی بل 2021 ایجنڈے پر موجود ہے حکومت اسے ایوان میں کیوں پیش نہیں کررہی۔ اس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ بل حکومت کو پیش کرنا ہے۔ اگر وہ پیش نہیں کررہے تو وہ کیا کرسکتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے چیئرمین سینیٹ نے اجلاس کچھ دیر کے لیے ملتوی کردیا۔
وقفے کے بعد اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو ایوان میں حکومتی سیینٹرز کی تعداد بہتر دیکھائی دی۔ تحریکِ انصاف کی سینیٹر زرقا ویل چیئر پر ایوان پہنچیں اور انہوں نے آکیسجن لگا رکھی تھی جب کہ ڈاکٹرز کی ٹیم بھی ان کے ہمراہ تھی۔
وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے بل ایوان میں پیش کیا جس پر رائے شماری ہوئی تو حق اور مخالفت میں یکساں42،42 ووٹ نکلے۔ تحریک کے حق اور مخالفت میں برابر ووٹ آنے پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپنا ووٹ بل کے حق میں ڈالتے ہوئے تحریک کو منظور کر لیا۔
مقامی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق سینیٹ کے ارکان کی اس وقت تعداد 99 ہے جن میں سے86 ارکان ایوان میں موجود تھے۔
آزاد رکن دلاور خان نے بل کے حق میں ووٹ دیا جب کہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے ایک رکن فاروق کاسی اس وقت ایوان سے باہر نکل گئے تھے جب بل پر ووٹنگ جاری تھی۔
حزبِ اختلاف نے بل کی منظوری پر ایوان کے اندر احتجاج کیا اور چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کا گھیراؤ کرتے ہوئے نعرے بازی کیا۔
خیال رہے کہ سینیٹ میں حزب اختلاف واضح اکثریت رکھتی ہے۔ ایوان میں اپوزیشن کے 57 کے مقابلے میں حکومت کے ارکان کی تعدادصرف 42 ہے۔ حزبِ اختلاف اہم قانون سازی کے دن ایوان میں صرف 43 اراکین کی حاضری کو یقینی بنا سکی۔
قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے متعدد اراکین اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کے بل کی منظوری ایجنڈا پر ہونے کے باوجود ایوان میں حاضر نہیں تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما اور سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف یوسف رضا گیلانی کی اجلاس سے غیر حاضری پر پاکستان مسلم لیگ (ن) نے تنقید بھی کی۔
دلچسپ طور پر حزب اختلاف کے 10 اراکین ایوان سے غیر حاضر رہے جن کا تعلق مختلف جماعتوں سے ہے۔ غیر حاضر رہنے والے اراکین میں مسلم لیگ (ن) کی سیینٹر نزہت صادق بیرون ملک جب کہ مشاہد حسین سید کرونا وائرس میں مبتلا ہونے کے باعث اجلاس میں نہ آ سکے۔
بی این پی مینگل کے سینیٹر قاسم رونجھو اور سینیٹر نسیمہ احسان شاہ بھی اجلاس میں شریک نہ ہوئیں۔ جمعیت علماء اسلام(ف) کے سینیٹر طلحہ محمود اور پی کے میپ کے سینیٹر سردار شفیق ترین بھی ایوان میں موجود نہیں تھے۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر یوسف رضا گیلانی کے علاوہ سینیٹر سکندر مندھرو بھی اجلاس میں شریک نہیں تھے وہ امریکہ میں زیرِ علاج ہیں۔
حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیو ایم) کے سینیٹر فیصل سبزواری اور خالدہ اطیب بھی بل کی منظوری کے وقت اجلاس میں شریک نہیں تھے۔
بل منظور ہونے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان کا اجلاس پیر تک ملتوی کر دیا۔
واضح رہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر قرض کی قسط جاری کرنے کے لیے پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی عائد کرنے اور اسٹیٹ بینک کو خودمختار بنانے جیسے اقدامات کرنے کی شرط عائد کی تھی۔
مبصرین کے مطابق سینیٹ سے اسٹیٹ بینک سے متعلق بل کی منظوری کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر کی قسط ملنے کی راہیں ہموار ہو گئی ہیں۔
پاکستان کے وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے بدھ کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستان کو قرض کی قسط کے حوالے سے آئی ایم ایف نے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس پاکستان کی درخواست پر دو فروری تک ملتوی کر دیا ہے۔
شوکت ترین کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے اجلاس سے قبل ہی حکومت کی کوشش ہے کہ سینیٹ سے اسٹیٹ بینک ترمیمی بل منظور کرایا جائے گا۔
اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کیا ہے؟
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت نے گزشتہ برس مارچ میں آئی ایم ایف سے 500 ملین ڈالر قرض کی قسط وصول کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا تھا کہ ملک کے مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کومزید خود مختار بنایا جائے گا۔ حکومت نے اس مقصد کے لیے قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔
حکومت نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کے بعد شوکت ترین کو مشیر خزانہ بنانے کے بعد اس معاملے پر آئی ایم ایف سے یہ شرط واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا البتہ آئی ایم ایف اس سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہوا اور حکومت کو یہ بل کابینہ کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی سے منظور کرانا پڑا اور اب اسے باقاعدہ قانون بنانے کے لیے سینیٹ سے منظوری حاصل کرنی ضروری تھی۔
مجوزہ بل کے تحت حکومت اسٹیٹ بینک سے قرض نہیں لے سکے گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک کی مدت ملازمت کو تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کیا جا رہا ہے اور اس مدت میں توسیع بھی کی جا سکے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ معاشی استحکام کے لیے ایسا کرنا ضروری ہے۔ جب کہ حکومت پہلے ہی 2019 کے بعد سے مرکزی بینک سے قرض نہیں لے رہی بلکہ حکومت نے مرکزی بینک کے قرض میں سے 1500 ارب روپے واپس کیے ہیں۔
معاشی مبصرین اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں اسٹیٹ بینک کے لیے حکومت کے مجوزہ ترمیمی بل کو ملکی خود مختاری کی قربانی قرار دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اب حکومت کو قرض کے لیے نجی بینکوں کی طرف دیکھنا ہو گا جو کمرشل بنیادوں پر مہنگے اور من مانی شرائط کے تحت ہی قرض دیں گے۔
سیاسی امور کے مبصرین پروفیسر حسن عسکری نے وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ حزبِ اختلاف کی قیادت نے حکومت کو یہ بل منظور کرانے میں سہولت دی ہے۔ اراکین کی غیر حاضری کے باعث اپوزیشن کی ایوان بالا میں اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف کی اعلیٰ قیادت اور اراکین پارلیمنٹ کے درمیان سوچ اور حکمتِ عملی پر یکسانیت کا فقدان دیکھائی دیتا ہے۔ اسی وجہ سے حزبِ اختلاف کے اراکین سینیٹ اس اہم دن کے موقع پر ایوان میں موجود نہیں تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف کی قیادت کو چاہیے کہ وہ قومی معاملات پر حکمتِ عملی طے کریں۔ دعوؤں کے باوجود حزبِ اختلاف زمینی حقائق سے مار کھا جاتی ہے۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ سینیٹ میں حکومت کی آج کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی حزبِ اختلاف کی کوشش اب صرف بیانات تک ہی محدود رہے گی۔
حزبِ اختلاف کے لانگ مارچ پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) الگ الگ لانگ مارچ کر رہے ہیں۔ لٰہذا حزبِ اختلاف کی تقسیم کے باعث حکومت کے جانے کا فوری طور پر کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا۔
تجزیہ کار مظہر عباس کہتے ہیں کہ اکثریت رکھنے کے باوجود حزبِ اختلاف کو دو مرتبہ پہلے بھی سینیٹ میں شکست ہو چکی ہے البتہ اپوزیشن نے اس پر نہ تو غور کیا اور نہ ہی دوسری طرف جانے والے یا بلا وجہ غیر حاضر رہنے والے اراکین سے باز پرس کی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ حکومت پر الزام تراشی اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ حزبِ اختلاف کو اپنے اندر کے لوگ تلاش کرنے چاہیئں۔
انہوں نے کہا کہ اگر حزبِ اختلاف سنجیدہ ہوتی تو اسٹیٹ بینک کے بل پر انہیں شکست نہ ہوتی اور اس شکست کے بعد حزبِ اختلاف کے اندر بھی یہ سوال اٹھے اور انتشار و تقسیم سامنے آئے گی۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک اب نہیں آئے گی کیوں کہ جس ایوان میں حزبِ اختلاف اکثریت رکھتی ہے وہاں وہ اسے ثابت نہیں کر پائی تو جہاں اکثریت نہیں رکھتی وہاں کیسے ثابت کرے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی غلطیوں سے نقصان تو اٹھا سکتی اور البتہ حزبِ اختلاف نے گزشتہ ساڑھے تین سال میں پارلیمنٹ کے اندر یا باہر حکومت کے لیے کوئی خاص مشکل کھڑی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ لانگ مارچ بھی سیاسی طاقت کا مظاہرہ ہوگا لیکن اس سے حکومت کو کوئی خطرہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔